ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سجاد خان (پی ایس پی‘ پی پی ایم‘ ایل ایل ایم) کے دفتر میں ’موسم بہار‘ کی مناسبت سے موسمی پھول لگانے میں مصروف نئے بھرتی ہونے والے پولیس اہلکار اپنی تربیت کے ایک اہم مرحلے سے گزر رہے تھے‘ جو درحقیقت اِن کی ذہنی و جسمانی مشقت اور کام سے لگن کا امتحان تھا لیکن ’اُنتیس مارچ‘ کی صبح ’ڈی پی او مانسہرہ کے دفتر میں صرف یہی ایک گہماگہمی نہیں تھی بلکہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں حفاظتی انتظامات (سیکورٹی پلان) کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ‘ الیکشن کمیشن اور پاک فوج کے اہلکاروں سمیت مقامی اور غیرمقامی (انتخابات کیلئے طلب کردہ پولیس) اعلیٰ حکام سر جوڑے بیٹھے تھے کیونکہ انتخابی حکمت عملی (پولنگ سکیم) کے مطابق مانسہرہ کی 5 تحصیلوں (بالاکوٹ‘ اُوگی‘ بفہ‘ پاخال‘ دربند اور مانسہرہ) سمیت متصل ضلع ایبٹ آباد کی 31 ویلیج کونسلوں کے پولنگ و حفاظتی انتظامات بھی ضلع مانسہرہ کے حوالے کئے گئے ہیں جہاں مجموعی طور پر 865 پولنگ مراکز بنائے گئے ہیں اور اِن میں 165 انتہائی حساس اور 440 حساس قرار دیئے گئے ہیں۔
کسی پولنگ مرکز کے حساس یا انتہائی حساس ہونے کا تعین وہاں عام انتخابات کے ماضی اور حال کی صورتحال کو مدنظر رکھنے کے علاوہ خفیہ اداروں کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے اور یہ عمل انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے، تجویز ہے کہ الیکشن کمیشن جہاں ووٹروں کی خواندگی اور خواتین کے بطور ووٹر اندراج (رجسٹر) ہونے کے لئے خصوصی مہمات چلاتا ہے‘ وہیں ایک مہم ہر انتخاب میں حساس و انتہائی حساس قرار پانے والے ’پولنگ مراکز‘ سے متعلق بھی ہونی چاہئے تاکہ انتخابی عمل انتشار و خطرات کی بجائے حق رائے دہی میں شائستگی و ایک دوسرے کے احترام جیسی خوبیوں کا مجموعہ دکھائی دے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اپنے انتخابی مفادات کیلئے وہ اُس حد تک نہ جائیں جہاں کسی ایک ہی علاقے (انتخابی حلقے) کے رہنے والے ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارہ نہ کریں اور یہ نفرت اِس انتہا کی ہو کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہ کریں۔
الیکشن کمیشن ہر ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اگر ابتدائی طور پر تین درجاتی حکمت عملی وضع کرے یعنی 1: پولنگ مراکز کے مقامات میں ردوبدل (جہاں ممکن ہو)‘ 2: حساس و انتہائی حساس علاقوں میں پولنگ مراکز کی تعداد میں اضافہ (بہرحال ممکن بنایا جائے اور 3: گشتی پولنگ مراکز کے ذریعے حساس و انتہائی حساس پولنگ مراکز پر ووٹروں کا ہجوم کم کیا جائے تو ہر انتخاب کے ساتھ بڑھنے والی نفرتیں‘ کدورتیں اور دشمنیوں پر بڑی حد تک قابو پانے کے ساتھ امن و امان کے حالات مجموعی طورپر بھی معمول پر لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ روایت رہی ہے کہ ہر انتخابی مرحلے کے موقع پردفعہ 144‘ لگا کر ہتھیاروں کی نمائش‘ ہوائی فائرنگ‘ نفرت انگیز و اشتعال انگیر مواد کی تحریر‘ اشاعت و تقسیم پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور ایسا اِس مرتبہ بھی متعلقہ اضلاع میں کیا گیا ہے کہ دفعہ 144 جیسے انتظامی ہتھیار سے روایتی انداز میں کام لیا جا رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر نظر نہیں رکھی جا رہی جہاں نفرت و اشتعال انگیزی عام ہے۔
سیاسی کارکن ایک دوسرے کی تضحیک کیلئے تضحیک آمیز کلمات و نکات اور ذو معنی پہلوؤں سے بیان بازی کرتے ہیں اور اِس طرزعمل میں قائدین سے لیکر کارکن تک سبھی شامل ہیں! طرح طرح کے طعنے اور جگتیں سوشل میڈیا کی وجہ سے انتخابات کا مزاج بنتی جا رہی ہیں۔خیبرپختونخوا کے شمال مشرق اور دریائے سندھ کے مشرقی کناروں پر پھیلا ہوا ’ہزارہ ڈویژن‘ 8 اضلاع (ایبٹ آباد‘ بٹ گرام‘ ہری پور‘ کولائی پلاس‘ مانسہرہ‘ تورغر اور بالائی و زریں تورغر) پر مشتمل ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے اور آخری مرحلے میں جن 18 اضلاع میں آج (اکتیس مارچ‘ بروز جمعرات) رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اُن میں ’مانسہرہ‘ بھی شامل ہے۔
جس کی آبادی سال 2017ء کی مردم شماری میں 15 لاکھ 55 ہزار 742 (مرد 7لاکھ 71 ہزار 976 اور خواتین 7 لاکھ 83 ہزار509) تھی اور اگر ہم مانسہرہ کے شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کے تناسب کی بات کریں تو اِس ضلع کی 14 لاکھ یعنی 90 فیصد سے زیادہ آبادی دیہی جبکہ قریب ڈیڑھ لاکھ یعنی9.31 فیصد آبادی شہری علاقوں میں آباد ہے اور یہاں کی مجموعی شرح خواندگی ساڑھے باسٹھ فیصد سے زیادہ ہے جن میں مردوں کی شرح خواندگی کا تناسب 75 فیصد اور خواتین کی کل آبادی کی شرح خواندگی پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔
مردم شماری کے اعدادوشمار اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن جب ضلع مانسہرہ کی آبادی کے بارے میں ’ضلعی پولیس آفیسر‘ سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے ماتحت اہلکار سے تصدیق کے بعد اِسے 20 لاکھ سے زیادہ بتایا اور یہ صرف غالب گمان نہیں بلکہ حقیقت کے قریب ترین ہے کیونکہ مانسہرہ کی حیثیت دیگر اضلاع مقابلے مرکزی ہے‘ جہاں مختلف اضلاع سے نقل مکانی کرنے والے اپنی اپنی شناخت کے ساتھ آباد ہیں اور کاروباری و تجارتی لحاظ سے دیکھا جائے تو ’مانسہرہ‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں شامل اہم منڈی (جنکشن مارکیٹ) ہے‘ جہاں کی رونقوں میں موٹروے ایکسپریس روڈ کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے لیکن شہری و دیہی ترتیب اور سماج کی تشکیل کے کئی ایک نظرانداز پہلو بھی ہیں‘ جن میں تجاوزات‘ بے ہنگم تعمیرات اور غیرمعیاری ترقیاتی عوامل پر یکساں توجہ ہونی چاہئے۔ صرف انتخابات انتخابات ہی نہیں بلکہ اصلاحات اصلاحات بھی ہونی چاہئیں۔