آزادی اظہار رائے 

اظہار رائے کی آزادی بنیادی شہری حقوق میں شامل ہے۔تمام ممالک کے دساتیر اور قوانین میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو تسلیم کیاگیا ہے تاہم کسی شہری کو کسی بھی مہذب معاشرے میں مادر پدر آزادی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔کہتے ہیں کہ کسی کی آزادی کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے جب کسی دوسرے کے حقوق اس سے متاثر ہونے لگیں۔پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی ریاست، مملکت سے وفاداری، نظریہ پاکستان پر عمل درآمد اور اسلامی تعلیمات کی پابندی سے مشروط ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے کیونکہ اگر آپ کے اظہار رائے سے کسی کی جان، عزت و آبرو، روزگار، نیک نامی اورخاندان کو نقصان پہنچتا ہے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں تو یہ قابل تعزیر جرم ہے۔ سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اسے سخت قوانین اور ریاستی طاقت سے روکنے کی ضرورت ہے اگر اسے اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر نظر انداز کیاگیا تو کسی کی عزت و آبرو، نیک نامی اور جان و مال محفوظ نہیں رہیں گے کیونکہ جس کسی کے دل میں جو آرہا ہے وہ سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے کیونکہ یہاں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے مغربی معاشرے کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے مغربی ملکوں میں بھی اپنے مذہب،عقیدے، قومی مفادات اور ریاستی اداروں کے خلاف لکھنے اور بولنے کی اجازت نہیں ہے۔اس طرح بہت سی اور پابندیاں بھی عائد ہیں کہ جن کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں مقرر ہیں۔ البتہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے اور دل آزاری کو اظہار رائے کی آزادی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ یعنی وہاں پر آزادی اظہار رائے کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں وہ ایک طرح سے امتیازی قوانین ہیں جن میں مخصوص نظریات کے خلاف بولنا منع ہے۔ہمارے ہاں  سوشل میڈیا پر جس طرح لوگوں کی پگڑیاں اُچھالی جاتی ہیں ایک دوسرے کے خیالات اور نظریات پر حملے کئے جاتے ہیں اس سے معاشرے میں عدم رواداری اور تشددفروغ پارہا ہے، بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لگائی گئی پوسٹ کے باعث قتل مقاتلے تک بات پہنچی ہے  اور کئی خاندان تباہ ہوئے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا مستقبل سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز اور تصاویر سے تاریک بنایا گیا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت کے ہر فیصلے اور اقدام کو سیاست کے ترازو میں تولا جاتا ہے اور اس میں سازشی عنصر تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھوٹ، بہتان اور الزام تراشی کی دین اسلام نے سختی سے ممانعت کی ہے اور اسے منافق کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افواہوں اور غلط خبروں کا راستہ روکنا امن عامہ کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف آپس میں منافرت پروان چڑھتی ہے بلکہ بسا اوقات قیمتی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے اس لئے ایسے قوانین جو معاشرے کو تحفظ فراہم کرے اور جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے یقینا ایک احسن اقدام ہے یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی قانون کا استعمال ہی اسے موثر بنا سکتا ہے اور کسی بھی چیز کا غلط استعمال اچھی چیز کو بھی نقصان دے اشیاء کے زمرے میں شامل کر سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں آگاہی اور موثر قوانین کے ذریعے جھوٹ‘ غیبت‘بہتان طرازی‘ الزام تراشی اور دیگر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے۔اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کیلئے ان کاموں سے پرہیز ناگزیر ہے جن سے اسلام نے منع کیا ہے۔