پشاور کہانی: …… مگر پانی کی قلت ہو گئی ہے!

موسم گرما کی شدت بڑھنے کے ساتھ‘ ایک مرتبہ پھر پشاور کے مختلف حصوں سے ’پانی کی قلت‘ بارے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں پہلی وجہ آبادی کا بوجھ ہے جس کی ضروریات کے تناسب سے پانی دستیاب ہی نہیں اور جب آبادی کی ضروریات کیلئے پانی جیسی جنس موجود ہی نہیں تو پھر وقتی یا موسمی قلت پر تعجب کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ پانی کی قلت کی دوسری وجہ بجلی کی فراہمی میں طویل تعطل یا بار بار تعطل ہے ’واسا‘ کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ وہ موسم گرما کے دوران ٹیوب ویلز کے اوقات کا تعین مقرر کرنے کی بجائے ہر ٹیوب ویل کو ’گھنٹوں‘ کے حساب سے فعال رکھنے کا حکم جاری کریں تاکہ آئندہ چند روز میں شروع ہونے والے رمضان المبارک اور اِس کے بعد شدید گرمی کے موسم کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات کم ہوں۔پشاور کو مختلف ذرائع سے فراہم کیا جانے والا پانی حسب آبادی کافی نہیں۔ اِس بات کو اعدادوشمار سے سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ سروسیز اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ (حکومتی ادارے) کے مرتب کردہ کوائف کے مطابق پشاور کو یومیہ 31.68 ملین گیلن پانی فراہم ہوتاہے۔
 اِس میں سے یومیہ 28.08 ملین گیلن پانی ٹیوب ویلوں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ 3.6 ملین گیلن پانی ’پشتخرہ واٹر سپلائی سکیم‘ سے حاصل کیا جاتا ہے اور جب اِن دونوں ذرائع کو جمع کیا جاتا ہے تو پانی کی مجموعی فراہمی اور پانی کی مجموعی ضرورت کے درمیان یومیہ چار سے پانچ ملین (چالیس سے پچاس لاکھ) گیلن پانی کی کمی ہوتی ہے جو کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ پانی کی اِس قلت کو دور کرنے کیلئے ٹیوب ویلوں کو اضافی اوقات چلانے کا تجربہ بھی کیا گیا  لیکن چونکہ پائپ لائنز کے ذریعے پانی کا ترسیلی نظام پورے پشاور کی کفالت نہیں کرتا اِس لئے ٹیوب ویلوں سے اضافی گھنٹے پانی فراہم کرنا بھی مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ کسی ٹیوب ویل کی عمر پندرہ سے بیس سال ہوتی ہے جس کے بعد اُسے ختم کردینا چاہئے لیکن پشاور میں بیس سال سے بھی زیادہ پرانے ٹیوب ویلوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔فیصلہ سازوں نے سال 2024ء تک کیلئے پانی کی فراہمی کی جو حکمت ِعملی وضع کی ہے اُس کے مطابق مذکورہ عرصے میں ایسے 70 ٹیوب ویلوں کو ختم کردیا جائے گا جن کی عمریں پندرہ سے بیس برس سے زائد ہیں۔
 ذہن نشین رہے کہ کسی ایک ٹیوب ویل سے زیادہ عرصہ استفادہ کرنے کی صورت میں اِس کے زیرزمین پانی میں مٹی اور ریت کے ذرات کا تناسب بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کو صاف کرنے والے زیرآب آلات جلد خراب ہو جاتے ہیں جبکہ پانی کا اخراج (ڈسچارج) کم ہونے کی وجہ سے ٹیوب ویلوں کو زیادہ دیر تک چلانا پڑتا ہے جس سے زیادہ بجلی خرچ ہوتی ہے۔ ٹیوب ویلوں سے پانی حاصل کرنے والے پشاور کے گھریلو صارفین 850 روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں لیکن اِنہیں نہ تو پانی کی فراہمی کے اوقات میں ردوبدل سے آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی صارفین تک پانی پہنچنے کے حوالے سے جائزہ یا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کی جا رہی ہے۔ پشاور کے ٹیوب ویلوں کا ماہانہ بجلی بل ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت سال 2024ء تک پشاور میں 262 نئے ٹیوب ویلوں کا اضافہ کیا جائے گا جن کے فعال ہونے کی صورت بجلی کا بل 2 کروڑ روپے ماہانہ تک جا پہنچے گا۔ فیصلہ سازوں کو ٹیوب ویل جیسے آسان فیصلوں کی بجائے پشاور کو پانی کی فراہمی کیلئے طویل المیعاد حکمت عملی وضع کرنی چاہئے جس میں ٹیوب ویلوں پر ہر سال انحصار بڑھنے کی بجائے کم کرنے کی تدبیر و حکمت زیادہ موزوں‘ حسب حال‘ کم خرچ اور پائیدار رہے گی۔
یادش بخیر‘ پشاور کے مختلف حصوں میں پانی کے کنویں ہوا کرتے تھے۔ نہری نظام سے مقامی افراد صاف و شفاف اور ٹھنڈا پانی حاصل کرتے اور کوئی اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ رواں دواں نہری پانی میں گندگی و غلاظت ڈالی جائے گی لیکن آج پشاور کا نہری نظام ایک وسیع و عریض نکاسیئ آب کے نالے میں تبدیل ہو چکا ہے اور مقام تفکر یہ بھی ہے کہ اِسی آلودہ پانی سے زرعی آبپاشی بھی کی جا رہی ہے! قیام پاکستان کے بعد تک یہ کنویں فعال رہے اور اِن کے آثار اب بھی موجود ہیں جنہیں دوبارہ بحال کرکے کم سے کم اندرون شہر کے رہنے والوں کی ایک پریشانی تو حل کی جا سکتی ہے۔ اِس مرحلہئ فکر پر بنیادی سوال یہ ہے کہ سرد چاہ گیٹ (جسے عرف عام میں ٹھنڈی کھوئی) کہا جاتا ہے اِس مقام پر کنواں ہوا کرتا تھا اور اِس طرح کے کنویں دیگر دروازوں کی حدود میں بھی ہوتے تھے۔ ٹیوب ویل کی آمد سے قبل پشاور میں کنوؤں اور نہری نظام ہی سے استفادہ کیا جاتا تھا جنہیں ختم کر کے 100 فیصد انحصار ٹیوب ویلوں پر کر دیا گیا ہے جبکہ پشاور کی 92 یونین کونسلوں میں سے بمشکل نصف یونین کونسلوں میں ٹیوب ویل نصب ہیں اور دیگر علاقوں بالخصوص مضافاتی دیہی علاقوں میں آج بھی پینے کیلئے صاف پانی اور آبپاشی کیلئے کنوؤں پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ٹیوب ویلوں پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے پشاور کو اطراف میں موجود پانی کے ذخائر سے ’گریویٹی فلو اسکیم‘ کی طرز پر پانی پشاور لایا جائے اور اِسے کم خرچ و لاگت سے اندرون شہر‘ گھر گھر پہنچایا جا سکتا ہے اور اِس طرح پانی کی ترسیل پر ٹیوب ویلوں کے مقابلے لاگت بھی کم آئے گی۔