مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں 

 شہر اقتدار اسلام آباد کے باسیوں کے اعصاب بہت مضبوط ہیں یا شاید ہو گئے ہیں اور یا پھر صورت حال کی تمام تر کشیدگی اونچے ایوانوں اور چھوٹی کھڑکیوں کی حد تک ہی اعصاب شکن ہو چلی ہے، ”آنے والے چند ہفتے، چند دن یا پھر چند گھنٹے بہت اہم ہیں اور بس کچھ ہونے والا ہے“ سنتے سنتے اور اس کے ساتھ زندگی کرتے کرتے جانے کتنے ہی یگ بیت چکے ہیں، جنہوں نے اپنی بصارتیں اور سماعتیں ان چھوٹی کھڑکیوں کے پاس رہن رکھی ہوئی ہیں ان کے لئے راوی پریشانی ہی پریشانی کی نوید سناتا ہے۔ البتہ جن دوستوں نے خواہی نخواہی خود کو اس ”سکرین گردی“ سے دور رکھا ہوا ہے وہ قدرے آرام سے ہیں، وہ دیکھتے تو ضرور ہوں گے مگر خود کو اس کا شکار نہیں ہونے دیتے جو اس دور میں ان کے مضبوط اعصاب کا ثبوت ہے اور ایسے ہی مضبوط اعصاب مجھے اسلام آباد کے باسیوں کے بھی نظر آئے، اتفاق سے مجھے گزشتہ ہفتے دو مرتبہ اسلام آباد جانا پڑا بلکہ پوری کوشش کی کہ کسی طور ان دنوں اسلام آباد کا رخ نہ کروں مگر پہلے معروف شاعرہ اور اینکر عائشہ مسعود نہ مانی اور مجھے ایک نجی نیوز چینل کے مشاعرہ کی ریکارڈنگزمیں شرکت کرنا پڑی، میں نے معذرت کی تھی کہ مجھے ریکارڈنگ کی تاریخ سے دو دن پہلے معروف شاعر حسام حر کے فرزند کی دعوت ولیمہ میں شریک ہونا ہے اس لئے پھر فورا ًہی دوبارہ اسلام آباد نہیں آ پاؤں گا، لیکن عائشہ مسعود جی کی محبت کہ انہوں نے انتظامیہ سے بات کر کے مشاعرہ دو دن پہلے ہی رکھوا لیا تھا تاکہ مجھے دوبارہ نہ آنا پڑے۔

گویا ایک ہی دن دونوں کمٹ منٹس پوری ہوئیں، دو گھنٹے کی دوری پر واقع اسلام آباد جانا کوئی مشکل کام نہ تھا مگر خبریں یہی آؔرہی تھیں کہ گرما گرم جلسے جلوس کی وجہ سے حالات میں بہت کھچاؤ ہو گا، احتجاج تو خیر بہت ضروری ہے وہ جو ”گلزار“ؔ نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ۔ ”میں سگریٹ تو نہیں پیتا لیکن ہر آنے والے سے پوچھ لیتا ہوں کہ ماچس ہے؟ بہت کچھ (یہاں ایسا)ہے جسے میں پھونک دینا چاہتا ہوں“اسی طرح میں بھی احتجاج کو ضروری سمجھتا ہوں مگر میں نے اپنے احتجاج کے بارے میں پہلے ہی کہہ دیا ہے۔
 لبوں پہ مہر ِ خموشی ہے احتجاج مرا
 جلوس میں ہوں میں شامل نہ دھرنے والا ہوں 
اس لئے ان ہنگاموں بھرے موسم میں شہر اقتدار کی طرف جانا نہیں چاہتا تھا۔سو میں صبح سویرے پہنچا اور آدھی رات کوئی بارہ بجے کے لگ بھگ واپسی ہوئی مگر حرام ہو جو ذرا بھی کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو، دوسری بار ابھی دو دن پہلے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئر مین دوست عزیز محمد یوسف خشک کی دعوت پر کمال فن ایوارڈ کی میٹنگ کے لئے گیا اور ہر چندبرادر عزیز میر نواز سولنگی نے اصرار بھی کیا کہ میٹنگ صبح گیارہ بجے ہے پشاور سے پہنچنا مشکل ہو گا ا س لئے آپ ایک دن پہلے ہی آ جائیں مگر میں نے حامی نہ بھری اور الحمدللہ ساڑھے دس بجے اکادمی میں تھا۔ اب کے سب احباب بنفس نفیس موجود تھے ورنہ گزشتہ دو ایک برسوں میں دور پار کے دوست آن لائن شریک ہوتے تھے۔ میٹنگ کا فریضہ اپنی جگہ مگر احباب سے ملاقات کا ”سواد“ تو چیزے دیگر ہے۔ ابراہیم ذوق نے کہا ہے نا کہ 
اے ذوق کسی ہمدم ِ دیرینہ کا ملنا
 بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
میٹنگ سے پہلے اور بعد کی گفتگو نے سرشار کر دیا لیکن اس روز بھی اسلام آباد کے باسیوں کے تر و تازہ چہروں پر کہیں اضطراب یا وہ بے چینی نظر نہیں آئی جو چھوٹی سکرین کی وساطت سے ہم تک مسلسل پہنچ رہی ہے، بلکہ اس دوران دوست عزیز محبوب ظفر اور محمد یوسف خشک مع بھابھی(ڈاکٹر صوفیہ خشک) بھی پشاور کاروان حوا ادبی فورم کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے آئے اور رات گئے اسلام آباد واپس گئے، میں سمجھتا ہوں کہ قوموں کی زندگی میں کچھ دن ھڈتوں اور شدتوں کے ضرور آتے ہیں اور جس کی وجہ سے اس ملک و قوم کا ہر شخص اس صورت حال کے لئے پریشان بھی ہو تا ہے اور اپنے سیاسی زعما ء کی طرف دیکھ بھی رہا ہو تا ہے کہ وہ کس طور اپنے لوگوں کے ان دھوپ بھرے شب و روز کو ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں بدلتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں سیا سی موسم کچھ اپنا ”وکھرا ہی مزاج“ رکھتے ہیں جب حالات صاحبان اقتدار کی مرضی اور منشا ء کے مطابق ہوں تو وہ بے فکر ہو کر وقت گزار رہے ہوتے ہیں اگر ذرا موسم میں بدلاؤ دیکھتے ہیں تو پھر انہیں یاد آ جاتا ہے

کہ اس ملک میں تو ایک ایسا طبقہ بھی ہے جسے عوام کہتے ہیں اور یہ بھی سیاسی رہنماؤں کے لئے غنیمت ہے کہ عام آدمی کا حافظہ کمزور ہو تا ہے یا پھر وہ مروت کے مارے سیدھے سادھے ہوتے ہیں اور اپنے سو کام چھوڑ کر ان کے جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے پہنچ جاتے ہیں۔یادش بخیر ہمارے گورنمنٹ کالج پشاور میں ہمارے ایک بہت ہی نفیس،نرم مزاج اور صلح جو پرنسپل بختیا ر خان ہوا کرتے تھے جب بھی کالج میں سٹوڈنٹس کی بے چینی کسی بڑے ہنگامے کا روپ دھار لیتی اور طلبہ کے دو دھڑوں میں کوئی جھگڑا ہو جاتا تو کالج گراؤنڈ میدان کارزار بن جاتا اور پڑھائی کا سلسلہ معطل ہو جاتا،پھر جب ان ہنگاموں میں ملوث طالب علم رہنماؤں کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کے لئے کالج کونسل یا کالج کی سٹاف میٹنگ بلائی جاتی،بحث مباحثہ کے بعد تجاویز مانگی جاتیں تو بختیا ر خان ایک ایک پروفیسر کو مخاطب کر کے اس کی رائے طلب کرتے مگر جب پروفیسر بات شروع کرتا تو فوراً اس کی بات کاٹ کر دوسرے پروفیسر سے تجویز مانگتے یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا جب اچانک کسی ایک پروفیسر کی بات وہ نہ صرف پوری سنتے بلکہ سب کو کہتے یہ عمدہ بات کر رہے ہیں، بہت دنوں بعد ان کی اس واردات کا ہمیں معلوم پڑا کہ وہ خود اپنی ایک رائے قائم کر کے پھر سٹاف سے پوچھتے مگر جن دوستوں کے رائے ان کی سوچی ہوئی رائے کے برعکس ہوتی ا ن کوبات پوری ہی نہ کرنے دیتے بس یہی کچھ ان کھڑکیوں کے اینکر بھی کرتے ہیں اس لئے کچھ نیوز چینل پانی کا گلاس آدھا بھرا ہوا بتاتے ہیں اور کچھ چینلز گلاس ؔآدھا خالی دکھا رہے ہو تے ہیں کچھ حالات کو قابو میں بتاتے ہیں اور کچھ بے قابو دکھاتے ہیں۔ اور اسی کشمکش کو چھوٹی سکرین والے ٹی وی ڈراموں کی طر ح ’لارجر دِن لائف“ ہی نہیں حقیقت کے بھی بر عکس دکھاتے اور بتاتے ہیں۔ جس سے دیکھنے والوں کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں مگر شہر اقتدار اسلام آباد کے باسیوں کے اعصاب بہت مضبوط ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کا غالبؔ کا سکھایا ہوا سبق ازبر ہے۔
رنج سے خوگرہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رمج
 مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں