اِنٹرنیٹ پر منحصر سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) نے تہذیب و اخلاق‘ آئین و قواعد‘ رہن سہن‘ بول چال‘ درس و تدریس‘ بودوباش حتیٰ کہ زبان و بیان پر بھی مثبت و منفی اثرات مرتب کئے ہیں جن میں نئے الفاظ کا اضافہ اور مختصر نویسی جیسی ایجادات کو اگر اِنسانی معاشرے کا ’ارتقائی عمل‘ قرار دے کر قبول کر لیا جائے تو تخلیقات کے جاری سلسلے میں صرف الفاظ نہیں بلکہ اندیشہ ہے کہ بڑی زبانیں بھی متروک ہو جائیں اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں زبان کو اُن کی اصل اور ماخذ سے قریب رکھنے اور دیکھنے والوں کی حیرت و تشویش میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ الفاظ جنہیں بننے میں واقعات کا تسلسل ملتا ہے اور تاریخ کے کئی ابواب پر مشتمل تذکرے کئے جاتے ہیں۔ وہ الفاظ جن کے مدد سے ادب و شاعری جیسے اظہار سے تخلیلات کی ترجمانی ہوتی ہے لیکن وہی الفاظ اپنے معانی‘ حسن اور مفہوم سے الگ کر کے دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ عمل کب سے اور کہاں سے شروع ہوا‘ اِس بارے میں محققین کا اتفاق ہے کہ زبان کے اصولوں‘ تاریخ اور لغت سے ’لا علم یا کم علم‘ افراد کی ’کارستانیوں‘ کو من و عن قبول کر لیا گیا ہے۔
تبدیلی ایک ایسے مسلسل عمل کا نام ہے جو ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور جسے روکا نہیں جا سکتا تو کیا زبانیں بھی تبدیل ہو رہی ہیں؟ اِس مرحلہئ فکر پر دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا کے استعمال سے زبانیں پھیل رہی ہیں یا زبانیں سکڑ رہی ہیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا چند سو سال بعد پوری دنیا میں صرف ایک ہی زبان اور ایک ہی وقت کا پیمانہ (انٹرنیٹ ٹائم) لاگو ہوگا؟فروری 2004ء میں متعارف ہونے والی سوشل میڈیا کی دنیا کا مقبول ترین نام ’فیس بک (facebook)‘ کا بنیادی مقصد ہم جماعتوں کے ایک دوسرے سے رابطوں کو ممکن بنانا تھا‘ جسے وسعت دیتے ہوئے ’ہم خیال‘ اور اہل خانہ عزیز و اقار بھی اِس میں شامل ہوتے گئے اور یہ عمل ’فرینڈ (friend)‘ یعنی دوست بنانے کی شکل اختیار کر گیا۔ غالباً سوشل میڈیا نے انگریزی لغت کو جو پہلا نیا لفظ دیا وہ مذکورہ ’فیس بک‘ ہی کی ایجاد تھی جو کسی دوست کو اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کرنے کے لئے وضع کیا گیا اور وہ پہلا لفظ ’اَن فرینڈ (UnFriend)‘ تھا۔ اِس سے قبل انگریزی لغت میں فرینڈ تو موجود تھا لیکن تعلق توڑنے کے لئے ’اَن فرینڈ‘ کا استعمال نہیں ہوتا تھا اور جیسے ہی ’اَن فرینڈ‘ کی اصطلاح قابل قبول ہوئی‘ اُس کے ساتھ نئے الفاظ کے اضافے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ جس کا نیا انداز (کوشش یہ ہے کہ) مختلف زبانوں سے الفاظ ادھار لیکر ایک نئی زبان تخلیق کی جائے۔ توجہ طلب ہے کہ دنیا کی معتبر انگریزی لغت (ڈکشنری) ’کیمبرج‘ کی جانب سے اُردو کے عام بولے جانے والے لفظ ’اچھا‘ کو ڈکشنری میں شامل کئے جانے پر اہل زبان جس خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اُس پر نظر بھی رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اِس سے اُردو کے الفاظ جو پہلے ہی میڈیا کے غیرمحتاط استعمال کی وجہ سے اپنے تلفظ و بیان (بقا) کی جنگ لڑ رہے ہیں
کہیں نئی مشکل میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’کیمبرج ڈکشنری‘ کے ماہر لسانیات ہر سال دنیا کی مختلف زبانوں کے عام الفاظ کو اپنی ڈکشنری کا حصہ بناتے ہیں اور اب تک ڈکشنری میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ایسے الفاظ شامل کئے جاچکے ہیں جو دیگر زبانوں سے مستعار ہیں۔ ڈکشنری کا حصہ بننے والے الفاظ میں اردو زبان کا عام لفظ ’اچھا‘ بھی شامل کر دیا گیا ہے جو کہ نہ صرف اُردو بولنے والے بولتے ہیں بلکہ پاکستان و بھارت میں بولی جانے والی دیگر ہندی‘ پنجابی‘ سندھی‘ پشتو‘ ہندکو‘ بلوچی و سرائیکی سمیت دیگر زبانوں میں بھی قریب قریب ایک جیسے ہی مطالب و معانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیمبرج ڈکشنری میں ’اچھا‘ لفظ کو شامل کرتے ہوئے اس کی معنی خوشی اور حیرت کے اظہار کے طور پر بیان کی گئی ہیں جو کافی نہیں۔ ڈکشنری میں ساتھ ہی جملے کو استعمال کرنے کی مثال بھی دی گئی ہے۔ مثالی جملے میں بتایا گیا ہے کہ ’میں اسے آدھی قیمت پر خریدنے میں کامیاب ہوگیا‘ پھر مثال میں دوسرے شخص کی جانب سے خوشی و حیرت کے اظہار کے طور پر لفظ ’اچھا‘ لکھا گیا ہے۔ ڈکشنری میں اچھا لفظ شامل کئے جانے کے ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ لفظ بھارتی انگریزی میں بھی عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ’اچھا‘ کو ڈکشنری کا حصہ بنائے جانے پر کئی سوشل میڈیا صارفین نے خوشی و حیرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا اور اِسے ’اُردو کی قدردانی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیمبرج لغت میں اچھا کو رومن انگریزی میں ’accha‘ لکھا گیا ہے جبکہ پاکستان و بھارت میں اِسے لکھتے ہوئے صرف ایک ’سی‘ کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی ’acha‘ لکھا جاتا ہے۔