انسان اور جانور کا رشتہ کرہئ ارض کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے لیکن اِس تعلق کو بہت کم سمجھا گیا ہے۔ مال مویشیوں میں ’لمپی سکن ڈیزیز (ایل ایس ڈی)‘ نامی بیماری وبائی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اِس بیماری کو عرف عام میں ”گلٹی دار“ یا ”گانٹھ“ والی جلدی بیماری کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک جرثومہ (وائرس) ہوتا ہے جو ایک جانور سے دوسرے جانور میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس طرح یہ بیماری پھیلتی چلی جاتی ہے۔ متعلقہ طبی ماہرین کے مطابق ’لمپی سکن‘ جرثومے کی دریافت افریقہ میں ہوئی جس کے بعد یہ مشرق وسطیٰ سے ہوتا ہوا پاکستان اور افغانستان تک پھیل چکا ہے اور اگر خاطرخواہ احتیاط نہ کی جائے تو یہ بیماری تندرست جانوروں کو موت کے منہ تک پہنچانے یا اُن کی اموات کا باعث بنتی ہے۔ لمپی سکن کے سفر کا آغاز 1929ء میں براعظم افریقہ کے ملک ’زیمبیا‘ سے ہوا جبکہ 1989ء میں یہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پائی گئی اور سال 2012ء سے یمن‘ عمان‘ مصر‘ اسرائیل‘ فلسطین‘ عراق‘ سعودی عرب‘ روس اور یورپ میں اِس کے جرثومے پائے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر جانوروں کی درآمد برآمد کے باعث یہ بیماری پھیل رہی ہے اور ایسے جانور جو لمپی سکن سے متاثر ہوتے ہیں لیکن ابھی اُن میں مرض کی علامات زیادہ واضح نہیں ہوتیں اور جب اُنہیں بنا طبی معائنے اور چند روز طبی نگرانی میں رکھنے کی بجائے برآمد کیا جاتا ہے تو اِس کے باعث ’لمپی سکن‘ کو پھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ گلٹی دار جلدی بیماری زیادہ ترگائے اور بھینسوں کومتاثر کرتی ہے۔ حال ہی میں سندھ کے مختلف اضلاع بالخصوص کراچی اور اس متصل علاقوں میں اِس جرثومے سے صرف گائے متاثر ہوئی۔ یہ بیماری بھیڑ‘ بکریوں میں نہیں پائی جاتی اور یہی وہ خاص نکتہ یعنی کہ راز ہے جس پر غور ہونا چاہئے کہ آخر بھیڑ بکریوں کے خون اور جنیاتی طور پر اِن میں ایسی کیا خصوصیت ہے کہ ایک عمومی جلدی بیماری اِنہیں لاحق نہیں ہوتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن جانوروں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہوئے اُن کے باڑوں (قیام گاہوں) کو باقاعدگی سے صاف و خشک رکھا جائے تو ایسی صورت میں ’لمپی سکن‘ نہیں ہوتی۔ عالمی سطح پر اِس بیماری سے شرح اموات پانچ فیصد ہے اور پاکستان میں پائے جانے والے اِس جرثومے سے مال مویشیوں کی صرف ’ایک فیصد‘ اموات ہوئی ہیں کیونکہ یہ بیماری زیادہ تر مال مویشیوں کی درآمدی اقسام کو فوراً متاثر کرتی ہے جبکہ دیسی نسل کی گائے اور جانور اِس سے محفوظ رہتے ہیں‘ جس کی علامات میں مال مویشیوں کو اچانک تیز بخار ہونا‘ اُن کے جسم کے مختلف حصوں پر گلٹیاں نمودار ہونا عام علامات ہیں۔ مال مویشیوں کا تیز بخار کا مطلب جسمانی درجہئ حرارت اکتالیس ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے اور بخار ہونے کے بعد ابتدائی اڑتالیس گھنٹوں میں جانورکے جسم‘ سر‘ گردن‘ ٹانگوں اور دیگر حصوں بشمول خاص اعضا پر سخت گول ابھار نما گھٹلیاں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جو دو سے پانچ سنٹی میٹر تک اُبھری ہوئی ہوتی ہیں اور ابتدأ میں دکھائی نہیں دیتیں لیکن ظاہر ہونے کے بعد دانوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور یہ دانے خودبخود پھٹ جاتے ہیں جن سے خون اور پیپ رستا ہے۔
یہ دانے کھرنڈ نما نشان چھوڑ جاتے ہیں اور اگرچہ یہ دانے خودبخود ختم بھی ہو جاتے ہیں لیکن اِس سے جانور شدید اذیت میں مبتلا رہتا ہے اور اِس کی ظاہری خوبصورتی بھی پہلے جیسی نہیں رہتی۔ مرض کی علامات میں جلدی غدود کے سائز کا بڑھنا‘ٹانگوں پر سوزش‘ جس سے جانورکوچلنے پھرنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ یہ بیماری مویشی پال کسانوں اور ملکی معیشت لائیوسٹاک کیلئے معاشی نقصانات کا باعث ہے اور اِس سے دودھ و گوشت کی پیداوار میں کمی کے ساتھ یہ بیماری کھال‘ چمڑے اورجیلاٹین کیلئے بھی نقصان کا باعث ہے۔ لمپی سکن کی تشخیص بذریعہ لیبارٹری جسم پر موجود دانوں اورخون کے نمونہ جات سے کی جاسکتی ہے۔ یہ مرض مچھر‘ مکھیاں اور چیچڑ سے پھیلتا ہے۔ بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ لمپی سکن کی بیماری مال مویشیوں سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوتی اور نہ ہی لمپی سکن سے متاثرہ جانورکا دودھ یا گوشت استعمال کرنے سے اِس بیماری کے لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کے زمانے میں دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور اب شہری و دیہی علاقوں میں معلومات پھیلانا نسبتاً آسان ہو گیا ہے اِس لئے ’سوشل میڈیا کے وسائل‘ کافی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ فی الوقت سوشل میڈیا پر ’لمپی سکن‘ کے بارے میں گمراہ کن باتیں خبریں بنا کر پھیلائی جا رہی ہیں جبکہ ایسی افواہیں اگر بنا تحقیق نہ پھیلائی جائیں تو اِس سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
امراض حیوانات کے ایک ماہر سے ہوئی بات چیت میں یہ دلچسپ نکتہ لائق توجہ ہے کہ آج کے دور میں مال مویشیوں سے زیادہ بیماریاں انسانوں میں پائی جاتی ہیں کیونکہ انسانوں نے کیمیائی مادوں سے بنی ہوئی خوراک کا استعمال شروع کر رکھا ہے۔ ’لمپی سکن‘ کی بیماری کسی بھی صورت مال مویشیوں سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوتی لیکن ایسے امکانات موجود ہیں کہ انسانوں میں پائی جانے والی بیماریاں جانوروں میں منتقل ہو کر ناقابل علاج شکل اختیار کر جائیں۔ قدرت کی جانب سے انسانوں اور جانوروں میں پائے جانے والے امراض کے درمیان ایک حد فاصل موجود ہے لیکن اگر قدرت کے بنائے ہوئے تنوع کا لحاظ نہ رکھا گیا تو اندیشہ ہے کہ قدرت کی جانب سے مال مویشیوں اور انسانوں میں بیماریوں کے درمیان جو فرق رکھا گیا ہے تو فرق کی یہ ’باریک تمیز‘ ختم ہو جائے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایسی اشیائے خوردونوش کا استعمال مکمل طور پر ترک کر دینا چاہئے جنہیں طویل عرصے تک خراب ہونے سے بچانے یعنی قابل استعمال رکھنے کیلئے اِن میں ایسے زہریلے کیمیائی مادے ملا دیئے جاتے ہیں‘ جن کی وجہ سے انسانوں میں مختلف اقسام کے سرطان پھیل رہے ہیں۔ مال مویشی پال کسان و کاشتکاروں سے زیادہ کھانے پینے میں ’غیرمحتاط‘ شہری زندگی بسر کرنے والوں کو اپنی عادات پر توجہ دینی چاہئے جو قدرت کے بنائے ہوئے توازن میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں اور اِن سے پراسرار بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جیسا کہ کورونا وبا‘ تو یہ زیادہ بڑے خطرے کی بات ہے!