پشاور ہائیکورٹ نے قبائلی اضلاع میں مراکز صحت کی حالت زار پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مراکز صحت میں تھرمامیٹر, سٹیتھوسکوپ اوربلڈ پریشر چیک کرنیوالی مشین بھی موجود نہیں ہے بیشتر مراکز صحت میں سٹاف کی بھی کمی ہے سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ مس منیجمنٹ اور بغیر پلاننگ کے کام کئے گئے جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں حکومت نے پراونشل ٹاسک فورس قائم کیا ہے اور مسائل کے حل کیلئے کام شروع کئے گئے ہیں جب دہشت گردی کی لہر کے باعث حالات خراب ہوئے تو اس میں مراکز صحت کو نقصان پہنچا اور اہلکار علاقہ چھوڑ کر چلے گئے تھے جو سٹاف ڈیوٹی پر نہیں آتا۔ ان کو نکال دیاہے۔موجودہ حکومت نے روز اول سے تعلیم اور صحت کے شعبے کو اپنی اولین ترجیح قراردیا ہے۔ دونوں شعبوں میں اصلاحات کیلئے کافی کام بھی ہوا ہے۔ اب سکولوں میں مقامی افراد کی ڈیوٹی لگا کر اساتذہ گھر نہیں بیٹھ سکتے۔ بائیو میٹرک حاضری کے علاوہ مانیٹرنگ ٹیمیں سکولوں کے دورے کرتی رہتی ہیں تعلیمی اداروں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی خاطر خواہ فنڈز مختص کئے جاتے ہیں صحت کے شعبے میں حکومت نے دیہی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ مقرر کردی ہے۔
پشاور، مردان، سوات، ڈیرہ ایبٹ آباد اور سوات کے تدریسی ہسپتالوں کو جدید طبی سہولیات سے آراستہ کیاگیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں صحت مراکز کی صورتحال بدستور قابل رحم ہے۔ بنیادی صحت مراکز، دیہی صحت مراکز اور ڈسپنسریوں میں ادویات اور سٹاف کی کمی ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو اپ گریڈ تو کیاگیا ہے مگر وہاں تشخیص کی سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو پشاور ریفر کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے شہری علاقوں کے ہسپتالوں پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ماضی میں قبائلی اضلاع میں صحت کے شعبے کیلئے اربوں کے فنڈز منظور کئے جاتے تھے مگر یہ فنڈ ہسپتالوں پر خرچ ہونے کے بجائے چند لوگوں کی جیبوں میں جاتے رہے۔ قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد وہاں بھی صحت اور تعلیم پر توجہ دی گئی مگر ستر سال کے مسائل چند سالوں میں حل نہیں ہوسکتے۔ صحت مراکز کی دگرگوں حالت کے ذمہ دار ایک طرح سے عوامی نمائندے بھی ہیں جواس حوالے سے موثرمانیٹرنگ نہیں کرتے۔ قبائلی علاقوں کی طرح صوبے کے دیگر پسماندہ اضلاع میں بھی سکول اور ہسپتال کی عمارتیں خاطر خواہ استعمال میں نہیں ہیں۔
یہی حال دیہی علاقوں کے بعض بھوت سکولوں کا بھی ہے۔ سرکار کے ریکارڈ میں وہ سکول فعال ہیں اور وہاں سٹاف بھی موجودہے اور سرکاری خزانے سے ہر مہینے ان کی تنخواہیں بھی ریلیز ہوتی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ روئے زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔اگر چہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے تاہم اب بھی شاز و نادر کیسز موجود ہیں جس کیلئے قوم کے عمائدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کیلئے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کریں بدقسمتی سے ہمارے ملک کے اکثر علاقوں میں تعلیم کی طرف توجہ دینے میں کمزوری دکھائی جاتی ہے اور یہ تعلیم کی کمی ہے جس کے باعث ترقی کاسفر رک جاتا ہے اور پسماندگی ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں ترقی کے لئے نہ صرف حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کرے بلکہ عوام بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز کرے کیونکہ تعلیم ہی وہ شعبہ ہے جس میں ترقی سے کوئی بھی ملک ترقیافتہ کہلایا جا سکتا ہے دوسری صورت میں ہمارے زیادہ تر مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ ہم نے تعلیم کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق ہے اور اس کا خمیازہ ہم پسماندگی اور معاشی مشکلات کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔