انسانی بحران

افغانستان اپنی تاریخ کے ایک اور انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے جبکہ سرحد پار سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ’رمضان المبارک‘ کی بابرکت ساعتوں میں بھوک و افلاس کی شدت ناقابل بیان حدوں کو چھو رہی ہے۔ اگرچہ افغانستان اِس سے قبل بھی بھوک کے شدید بحران کا سامنا کر چکا ہے۔ دو دہائیاں پہلے‘ افغانستان میں اِس قدر بھوک تھی کہ لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہوئے لیکن موجودہ معاشی صورتحال اِس حد تک خراب ہے کہ اِس کی مثال نہیں ملتی۔ غیر معمولی طور پر سرد موسم سرما اور دہائیوں کی بدترین خشک سالی کی وجہ سے بھی افغانستان میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے افغانستان معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے جس نے پچانوے فیصد افغانوں کو خوراک سے محروم کر دیا ہے! جی ہاں افغانستان کی 95 فیصد آبادی اشیائے خوردونوش سے محروم ہے اور یہ اعدادوشمار اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت امدادی تنظیموں کی جانب سے جاری ہوئے ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ”9کروڑ“ افغان بھوک سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں! علاج گاہیں پیدائش کے فوراً بعد مرنے والے بچوں سے بھری پڑی ہیں اور ایسے بچے کہ جن کا جسمانی وزن دو پاؤنڈ سے بھی کم ہوتا ہے اُنہیں بچانے کیلئے ادویات اور خوراک نہیں ہے۔ افغانستان کی صورتحال میں وہ طبقہ بھی پہلی مرتبہ بھوک و پیاس کے تجربے سے گزر رہا ہے جو اِس سے قبل ہر بحران کو کسی نہ کسی صورت جھیل لیتا تھا اور یہ طبقہ سرکاری ملازمین کا ہے جن میں اساتذہ‘ ڈاکٹر اور دیگر شعبوں کے سرکاری اہلکار شامل ہیں!
 ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ اور ڈاکٹر خوراک اور نقد امداد کیلئے قطار میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ افغانستان کو سفاک سردی‘ منجمد معیشت اور قحط جیسے محرک سے پیدا ہونے والے ”زہریلے امتزاج“ کا سامنا ہے۔ ہر ماہ گزرنے کے ساتھ‘ مزید افغانوں کو زندہ رہنے کیلئے کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت پڑ رہی ہے اور اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو مجبوری میں ایسے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں‘ جو ماضی میں بھی ہوتے رہے لیکن اِس قدر بڑے پیمانے پر دیکھنے میں نہیں آئے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا اِن کے حوالوں سے بھرے پڑے ہیں۔افغان دارالحکومت میں ہوٹلوں اور بیکریوں کے باہر بھکاریوں کی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے چہرے اُن کے لاغر پن اور غذائیت کی کمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ افغانوں کو فی الوقت صرف کھانا پینا ہی نہیں بلکہ مدد بھی چاہئے اور کوئی ایسا بھی ہو جو اُن کے آنسو پونچھے۔ افغانستان کی معیشت بکھر گئی ہے‘ جسے سمیٹنے کیلئے عالمی براداری اپنا خاطرخواہ کردار ادا نہیں رہی ہے اور ایسا اِس لئے ہو رہا ہے کہ کیونکہ امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک طالبان کے افغانستان پر اقتدار کو تسلیم نہیں کر رہے اور انہوں نے افغانستان کی نہ صرف بین الاقوامی امداد روک رکھی ہے بلکہ افغانستان کے اثاثے بھی منجمد کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے جنگ زدہ ملک کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔
 کئی افغان خاندان ایسے ہیں جنہیں دن میں صرف ایک وقت کا کھانا ملتا ہے اور وہ بھی ناکافی! یہی وجہ ہے کہ افغانوں کی ہر دن بڑھتی ہوئی تعداد ہلال احمر (بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی) کی جانب سے عطیات پر گزر بسر کر رہی ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”ورلڈ فوڈ پروگرام“ کے مطابق جون دوہزاراکیس سے لے کر مارچ دوہزاربائیس تک‘ افغانستان میں گندم کے آٹے کی قیمت میں 53فیصد‘ کوکنگ آئل کی قیمت میں 39فیصد اور چینی کی قیمت میں 36فیصد اضافہ ہوا جبکہ رواں برس افغانستان میں گندم کی پیداوار بھی اوسطاً 25فیصد کم رہنے کی توقع ہے کیونکہ ایک تو خشک سالی ہے‘ دوسرا کسانوں کے پاس زرعی پیداوار حاصل کرنے کیلئے ابتدائی لاگت کیلئے مالی وسائل نہیں اور تیسرا محرک موسمی اثرات ہیں جن کی وجہ سے زراعت ترک کر کے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی ہو رہی ہے تاکہ زندگی بچائی جا سکے۔ افغانستان میں غذائی قلت کے باعث 10 لاکھ بچوں کی اموات کا خدشہ ہے اور اِس صورتحال میں مسلمان ممالک بالخصوص افغانستان کے ہمسایہ مسلمان ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسلامی بھائی چارے‘ ایثار اور قربانی سے متعلق رمضان المبارک کے مقصد و پیغام کو سمجھیں اور افغانستان کی زیادہ سے زیادہ مددکریں۔