مہنگائی کی پیمائش اور جانچ دو طریقوں سے کی جاتی ہے ایک کا تعلق بنیادی ضرورت کی اشیا و اجناس کی قیمتوں میں ردوبدل سے جبکہ دوسرے کا تعلق صارفین کی قوت ِخرید سے ہوتا ہے جسے عرف عام میں ”صارف قیمت انڈیکس (سی پی آئی)“ کہا جاتا ہے۔ ’سی پی آئی‘ کے تحت مہنگائی بائیس جنوری کے بعد سے ”بلند ترین سطح“ پر ہے، جس کی وجہ توانائی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور خوردنی اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ جنوری میں مہنگائی تیرہ فیصد ریکارڈ جبکہ فروری دوہزاربیس کے دوران یہ ”بارہ اعشاریہ چار فیصد“ ہے جو دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ادارہ شماریات (پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس‘ کے مطابق ایسی اجناس کہ جنہیں زیادہ لمبے عرصے تک ذخیرہ نہیں رکھا جا سکتا‘
اُن کی قیمتوں میں بارہ اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ ماہ کے مقابلے بارہ فیصد زیادہ ہے یعنی ایک ماہ میں قیمتیں بارہ فیصد بڑھی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مارچ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے تیل کی قیمتیں تیس جون تک مستقل کر دی گئی تھیں اور پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بھی کم نہیں بلکہ ختم کر دیا گیا ہے‘ جس سے حکومت کی آمدنی ’پینتالیس ارب روپے‘ کم ہوئی لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اِس کمی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اسی طرح بجلی کی قیمت میں بھی پانچ روپے فی یونٹ کمی کی گئی ہے لیکن اِس کے مثبت اثرات بھی مہنگائی کم ہونے کی صورت ظاہر نہیں ہوئے ہیں تو عیاں ہے کہ مہنگائی کے 4 محرکات ہیں جن میں سے 2 کا تعلق ہر ضلع کی انتظامیہ پر عائد ہوتے ہیں‘ مارکیٹ پر کمزور کنٹرول ہونے میں شک و شبہ نہیں۔
مہنگائی کے دیگر 2 محرکات میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی جیسے محرکات ہیں‘ جن کی حوصلہ شکنی قوانین و قواعد پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم حالیہ مہینوں کی بات کریں تو نئے عیسوی سال کے دوران مہنگائی میں ”ہر دن اضافہ“ ہوا ہے۔ بنیادی طور پر ایندھن‘ بجلی‘ مکان کے کرائے‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور بالخصوص ایسی اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھی ہیں‘ جنہیں لمبے عرصے تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے حکومتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ”مہنگائی میں کمی لانے کیلئے ضروری ہے کہ ماہانہ قیمتوں میں ممکنہ حد تک اضافے کو محدود کیا جائے لہٰذا اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کی توجہ اس ماہانہ اضافے کو محدود کرنے پر مسلسل مرکوز ہے لیکن فی الحال بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے بین الاقوامی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ حکومت خاص طور پر ریلیف پیکجز کے ذریعے گھریلو صارفین کیلئے قیمتوں میں اس اضافے کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
ادارہ شماریات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ نو مہینوں میں خوراک کی افراط زر اب بھی بلندی پر ہے۔ رواں ماہ (مارچ دوہزاربائیس) کے دوران شہری علاقوں میں مہنگائی ساڑھے چودہ فیصد بڑھی ہے اور اگر مہنگائی کا موازنہ جاری مہینے سے گزشتہ مہینوں کے درمیان کیا جائے تو ایک ماہ میں قریب 2 فیصد (1.8 فیصدی) مہنگائی بڑھی ہے‘ جو دیہی علاقوں میں شہروں سے زیادہ ہے جہاں مہنگائی ساڑھے پندرہ فیصد اور ماہانہ موازنے کے اعتبار سے ایک ماہ کے دوران 2.3 فیصد بڑھی ہے۔ شہری علاقوں میں خوردنی اشیا سستی لیکن دیگر اشیا مہنگی ہیں اور یہ اس رجحان کے متضاد ہے جس میں عموماً شہری علاقوں میں زیادہ افراط زر کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جولائی سے مارچ کے درمیان مہنگائی کی سالانہ اوسط شرح گیارہ فیصد سے زیادہ (11.77) ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ ’سیاسی عدم استحکام‘ کو ہوا دیں گی تو اِس کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے‘
غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں کیونکہ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے اوربڑھتے ہوئے تجارتی خسارے (درآمدات و برآمدات میں عدم توازن) کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔