صدارتی نظام 

ملک میں آئے روز سیاسی بحران کے بعد سنجیدہ حلقوں کی طرف سے یہ تجویز سامنے آرہی ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت شاید ہمارے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔آئین میں ترمیم کرکے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر طائرانہ نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کثیر جماعتی پارلیمانی نظام سے اس قوم کو سیاسی استحکام کی صورت میں خاطر خواہ فائدہ نہیں مل سکا۔ 1951سے لے کر 1958تک پانچ حکومتیں بدلیں۔غلام محمد، محمد علی بوگرہ، ابراہیم اسماعیل چندریگر،حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون کو مدت پوری کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

جنرل ایوب نے 1962میں پہلا آئین نافذ کیا جس میں ملک کیلئے صدارتی طرز حکومت تجویز کی گئی تھی۔ انہوں نے ملکی تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے انہی بلدیاتی اداروں کو انتخابی کالج کا درجہ دے کر صدارتی الیکشن لڑا اور قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا کر ملک کے صدر بن گئے۔ اسی الیکشن کی ناکامی کو بنیاد بناکر پاکستان میں صدارتی نظام کو غیر موزوں قرار دیا جاتا ہے۔1970میں عام انتخابات کرائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے اپنی آئینی مدت تو پوری کرلی تاہم 1977میں جو انتخابات کرائے اس میں اپوزیشن نے دھاندلی کے الزامات لگا کر ملک گیر احتجاج شروع کردیا

جس کے نتیجے میں جنرل ضیاالحق کو مارشل لاء لگانے اور سیاسی حکومت کا بوریابستر گول کرنے کا موقع مل گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے مگر غیر سیاسی وزیراعظم محمد خان جونیجو کو بھی اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ سانحہ بہاولپور کے بعد سیاست دانوں کو پھر اُبھرنے کا موقع ملا۔ 1988سے لے کر 1998تک دس سالوں میں چار منتخب اور تین عبوری حکومتیں بنیں۔اس کے بعد جنرل مشرف کو اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا۔2007کے آخری دنوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی جگہ قتل کیاگیا جہاں 58سال پہلے لیاقت علی خان کو قتل کیاگیا تھا۔

بے نظیر کی شہادت کے بعد ہمدردی کے ووٹوں سے پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔2013کے انتخابات میں مسلم لیگ کو اقتدار ملا۔2018میں پاکستان تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ ملا تاہم دیگر سیاسی جماعتوں نے ساڑھے تین سال بعد ہی اسے گرانے کی ٹھان لی۔ پارلیمانی حکومتوں کی ساخت پر نظر دوڑائیں تو عجیب صورتحال نظر آتی ہے۔ ہر کابینہ میں وزیروں،وزرائے مملکت،معاونین خصوصی اور مشیروں کی تعداد 90سے زیادہ ہوتی ہے۔ اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنے کیلئے انہیں وزارتیں، پارلیمانی کمیٹیوں کی چیئرمینی سمیت پرکشش مراعات دینی پڑتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کوئی ایک جماعت اس کی ذمہ دار ہے

 یا یہ کہ پارلیمانی نظام یکسر ناکام ہے تاہم اس میں اصلاحات کی گنجائش ضرور موجود ہے، یا تو اس میں اصلاحات کی طرف توجہ دی جائے تاکہ معاملات سدھر جائیں اور دوسری صورت میں اس کے مقابلے میں صدارتی نظام ہے جس میں ایک پارٹی کی حکومت ہوتی ہے صدر اپنی صوابدید پر پانچ چھ قابل ترین لوگوں پر مشتمل کابینہ بناتاہے۔اور ملک کا نظام ہموار طریقے سے چلتا رہتا ہے امریکہ، فرانس، جرمنی سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں یہ نظام گذشتہ دو صدیوں سے کامیابی سے چل رہا ہے تو ہمارے ہاں یہ نظام کیوں نہیں چل سکتا؟