سیاسی تناؤ اور غیریقینی کی صورتحال میں دو اُمید افزأ خبریں لائق توجہ ہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ ”عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور جیسا کہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے تو اِس منفی تاثر کو بھی رد کیا ہے اور کہا ہے ”پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رہے گا اور کسی بھی نئی حکومت کے ساتھ مل کر ’آئی ایم ایف‘ اپنی پالیسی آگے بڑھائے گا۔“ پاکستان میں آئی ایم ایف کے ترجمان کے مطابق نئی حکومت کے ساتھ میکرو اکنامک استحکام کے فروغٖ اور پروگرام کے حوالے سے اقدامات کیلئے براہ راست رابطہ جاری رکھیں گے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے ’آئی ایم ایف‘ کے بیان کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
اِس سلسلے میں وزارت ِخزانہ نے ’آئی ایم ایف‘ کے بیان کے بعد جاری اعلامیے میں کہا ہے کہ ”خزانہ ڈویژن اور آئی ایم ایف دستاویزات کے تبادلے اور قرضہ توسیعی فنڈ کی سہولت کے حوالے سے اصلاحاتی بحث میں مصروف ہیں اور یہ ایک وقت طلب عمل ہے۔“ پاکستان کی جانب سے بھی وضاحت سامنے آئی ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ بات چیت اور تعلقات میں تعطلی کی افواہیں درست نہیں جس کی خود آئی ایم ایف نے بھی تصدیق کردی ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ پاکستان کے میکرواکنامک استحکام کیلئے بدستور پُرعزم ہے۔ قبل ازیں ’آئی ایم ایف‘ نے حکومت کی جانب سے حال ہی میں اعلان کی گئی ’ایمنسٹی اسکیم‘ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور مالی شعبے پر اِس کے اثرات اور وزیراعظم کے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے سے ٹیکس وصولی میں کمی کے باعث پیدا ہونے والی مالی مشکلات سے متعلق خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ حال ہی میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان چھ ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ پروگرام پر ساتواں جائزہ بغیر نتیجے کے ختم ہوا تاہم ممکن ہے
کہ ایک ارب نوے کروڑ ڈالر کی دو اقساط ماہ جون میں وفاقی بجٹ کے قریب ملیں۔ پاکستان کے فیصلہ ساز چاہتے ہیں کہ صنعتی شعبے کو ٹیکس چوری سے جمع کردہ ’کالا دھن‘ سفید کرنے کیلئے سہولت دی جائے تاکہ سرمایہ کاری اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو لیکن ’آئی ایم ایف‘ صنعتی شعبے کیلئے کالا دھن سفید کرنے کی تجویز کے حق میں دیئے گئے دلائل سے بالکل مطمئن نہیں اور ’آئی ایم ایف‘ کو صنعتکاروں کو رعایت دینے سے متعلق حکمت عملی کے بارے میں قائل نہیں کیا جا سکا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم سے کہا گیا تھا کہ ”معاشی اور مالیاتی پالیسی کی ایک یادداشت تحریر کریں اور پھر اس پر دستخط کئے گئے کہ اب مزید کوئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دی جائے گی۔“ اس کے علاوہ مالیاتی فنڈ نے چھٹے جائزے کیلئے حکومت کی جانب سے منظور کردہ ”منی بجٹ“ میں جنرل سیلز ٹیکس کا استثنیٰ ختم کر کے ٹیکس تفاوت واپس لینے کے اقدام کے باوجود تیسری ٹیکس استثنیٰ سکیم پر تنقید کی تھی۔
آئی ایم ایف اور حکومتی عہدیداروں کے درمیان چھ ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کے ساتویں جائزے پر مذاکرات چار مارچ کو شروع ہوئے جہاں عالمی ادارے نے موقف اپنایا کہ اگر سخت گیر ٹیکس وصولی کا نظام وضع نہیں کیا جائے گا تو اِس سے آنے والے بجٹ پر اثرات پڑسکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ آئی ایم ایف نے جون دوہزاراُنیس میں تین سالہ قرض کی منظوری دی تھی‘ جس کے تحت پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے چھ ارب ڈالر کا معاشی منصوبے میں تعاون کرنا تھا تاکہ ملکی معیشت پائیدار نمو کی طرف لوٹ آئے اور معیار زندگی بہتر ہو۔ آئی ایم ایف کا اُنتالیسواں پروگرام شیڈول کے مطابق رواں برس ستمبر میں اختتام پذیر ہوگا۔دوسری ’اچھی خبر‘ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے تاہم امریکہ کی جانب سے پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیلئے دباؤ کا ذکر نہیں کیا گیا‘ تجزیہ کاروں کی اکثریت ’معاشی خودکفالت‘ پر زور دیتی ہے کیونکہ امداد کی صورت میں امریکہ یا اِس کے زیراثر مالیاتی اداروں سے قرض مانگنے سے قومی فیصلہ سازی شدید متاثر ہوئی ہے۔
اور محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر امریکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اِس کی روشنی میں ہونے والے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن چونکہ اسلام آباد میں ایک نہایت ہی مختلف حکومت تھی‘ اِس لئے امریکہ کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ اپنے ممالک کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ حاکم و محکوم کے معیار پر قائم کرتا ہے۔ پاکستان کو سخت نتائج کی دھمکی دینے والے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط و جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو ہیں جو ستمبر 2021ء سے وزیرخارجہ (سیکرٹری سٹیٹ) کے نائب ہیں اور حال ہی جب اُن سے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اِس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈونلڈ لو کا نام بتاتے ہوئے
’دھمکی آمیز ریمارکس‘ دیئے تھے۔ امریکی معاون وزیر خارجہ (ڈونلڈ لو) اِن دنوں بھارت کا دورہ کررہے ہیں جہاں معروف بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ سے بات چیت کے دوران اُنہوں نے پاکستان کو دھمکی سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعاون اور تعلقات جاری رکھے گا۔ انٹرویو کے دوران ان کی واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں بھی سوال کیا گیا اور انٹرویو لینے والے نے ان سے پوچھا کہ ’عمران خان یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ آپ نے امریکہ میں پاکستانی سفیر سے بات چیت کی اور انہیں کہا کہ اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد کی صورت میں بچ جاتے ہیں
تو پاکستان مشکل میں پڑجائے گا اور امریکہ پاکستان کو معاف نہیں کرے گا کیا اِس پر کوئی رد ِعمل دیں گے؟ اِس غیرمتوقع سوال کا ڈونلڈ لو نے براہ راست کوئی جواب دینے کی بجائے کہا کہ ”امریکہ پاکستان میں ہونے والی پیش رفتوں کو دیکھ رہا ہے اور پاکستان کے آئینی عمل اور قانون کی حکمرانی کا احترام اور اس کی حمایت کرتا ہے۔‘ امریکہ کی وزارت خارجہ ہو‘ پاکستان میں تعینات سفارتی عملہ یا صدراتی محل (وائٹ ہاؤس) ہر امریکی عہدیدار اِس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا جس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔