پشاور کہانی: نرخنامہ

پشاور کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) اور متعلقہ محکمے (راشن کنٹرولر) کے دستخطوں سے نرخنامے حسب معمول اور حسب روایت جاری کئے جاتے ہیں ان کے مطالعے سے چار قسم کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ 1: کسی جنس کے فروخت سے متعلق نرخ کون مقرر کرتا ہے۔ 2: یہ نرخ کیا ہیں؟ 3: نرخوں کے ساتھ ضمنی ہدایات کیا ہیں؟ اور 4: کسی رائے یا شکایت کی صورت ضلعی انتظامیہ سے دیئے گئے فون نمبر کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ نرخنامے کی پہلی اور اہم معلومات کسی دن (مقررہ تاریخ کے چوبیس گھنٹوں) کیلئے قیمتوں کا تعین ہوتا ہے اور اگر اِس سلسلے میں مختصر ترین دستاویز یعنی گوشت کی فروخت سے متعلق نرخنامے کا جائزہ لیا جائے تو ضلع پشاور میں گائے کا گوشت 550 روپے فی کلوگرام‘ بھینس کا گوشت 500 روپے فی کلوگرام‘ خالص قیمت 580 روپے فی کلوگرام‘ دنبے اور بکرے کے گوشت کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1100 روپے فی کلوگرام مقرر کی گئی ہے لیکن اِن قیمتوں پر اوّل تو ”گوشت“ نام کی جنس نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو وہ معیار کے لحاظ سے ایسی نہیں ہوگی کہ گوشت کی سمجھ بوجھ‘ اِس کے ذائقے اور خوشبو سے مانوس کوئی بھی صارف (بنا مجبوری) اِسے خریدنا پسند کرے۔ یہی حال دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات (دہی‘ لسی‘ بالائی‘ مکھن‘ دیسی گھی‘ کھیر‘ کھویا وغیرہ) کا بھی ہے کہ جن کے معیار کے جواز پر منہ مانگی قیمتیں طلب کی جاتی ہیں اور خریداروں کے پاس سوائے زیادہ قیمت ادا کرنے چارہ نہیں ہوتا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ وہ آج کے دن سرکاری نرخنامے کے مطابق اور معیاری (درجہئ اوّل) کی اشیائے خوردونوش خریدے گا اور کسی بھی صورت نرخنامے سے زیادہ ایک روپیہ بھی اضافی ادا نہیں کرے گا تو اندیشہ (غالب گمان) یہی ہے کہ سارا دن شہر کی خاک چھاننے کے بعد اور دن کے اختتام پر خالی ہاتھ گھر لوٹے وفاقی ادارہئ شماریات کسی ضلع میں اجناس کی قیمتوں کے بارے میں جو اعدادوشمار جمع کرتا ہے اور اِن اعدادوشمار کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً ملک میں مہنگائی کی شرح سے متعلق جو بیانیہ پیش کیا جاتا ہے وہ اِس لئے درست نہیں ہوتا کیونکہ اضلاع کی سطح پر جاری ہونے والے نرخناموں اور مارکیٹ (منڈی و بازاروں) میں اجناس کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے لیکن اِس کھلم کھلا بے قاعدگی کی اصلاح نہیں کی جا رہی۔ معاملہ (قضیہ) صرف اشیائے خوردونوش کا نہیں جسے عموماً پھل سبزی‘ گائے‘ بھینس‘ بکری‘ مرغی کے گوشت‘ قیمے یا دودھ کی قیمتوں سے متعلق محدود سمجھا جاتا ہے بلکہ یہی نرخنامے کپڑوں کی سلائی اور بالوں کی کٹائی و دیگر کاروباری حلقوں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ تجویز ہے کہ نرخنامے (کاغذ اور گتے) پر جاری کرتے ہوئے اِن پر نمبرشمار (سیریل نمبر) لگائے جائیں۔ تھوک و پرچون تاجروں اور دکانداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے اِس رجسٹریشن سے تاجروں و دکانداروں سے پیشہ ورانہ ٹیکس کی وصولی کا نظام بھی مربوط ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو جیوگرافک لوکیشن ٹیگنگ (جی پی ایس ڈیٹا) کی روشنی میں خدمات و سہولیات کا نظام مرتب و مربوط ہوتا چلا جائے گا۔ ضرورت اِس اَمر کی بھی ہے کہ عوام سے شکایات یا آرأ ملنے کا انتظار نہ کیا جائے اور سرکاری اہلکار ’سادہ کپڑوں‘ میں ’غیراعلانیہ‘ بازاروں میں گشت کریں تاکہ نرخناموں کے مطابق اشیائے خوردونوش کی خریدوفروخت یقینی بنائی جا سکے۔ نرخناموں پر رابطے کیلئے موبائل اور واٹس ایپ نمبروں کے علاؤہ ’اِی میل‘ رابطوں کے ’QR Codes‘ درج ہونے چاہئیں تاکہ کم سے کم مرکزی شہری اضلاع میں انتظامیہ کا کردار کم خواندہ دیہی علاقوں کی نسبت نکھر کر سامنے آ سکے۔ صوبائی حکومت کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ اور عوام کے درمیان فاصلے (بداعتمادی کی حائل دیوار) ختم کرے اور عام آدمی (ہم عوام) کے ذہنوں میں ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کے حوالے سے جو شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اُنہیں مرحلہ وار دور کیا جائے۔ بلدیاتی نمائندوں کی شراکت سے نرخوں کے تعین کا عمل اور صارفین کی رائے سے آگاہی کے عمل کو زیادہ فعال‘ مربوط اور شفاف بنایا جا سکتا ہے اور اِس سلسلے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وسائل سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔