سٹریٹ چلڈرن: توجہ دلاؤ نوٹس

رمضان المبارک میں افطار کیلئے خریداری کا اپنا ہی مزا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد بازاروں کا رخ کرنے والوں یا اپنے کاروباری دن اور ملازمت کے اختتام پر گھروں کو واپس لوٹنے والے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور خریدتے ہیں‘ جو بنیادی ضرورت تو نہیں ہوتا لیکن رمضان کا ایک مطلب ذائقے دار اشیا بھی تو ہیں۔ پشاور کی روایت رہی ہے کہ یہاں نماز ظہر کے بعد سے ’رمضان بازار‘ سجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مصروف بازاروں کے فٹ پاتھ اور سڑک پر لگنے والے اِن بازاروں سے ضلعی انتظامیہ خصوصی رعایت برتتی ہے یعنی ایک ماہ کے لئے بازاروں میں تجاوزات قائم کرنے کی ’غیرتحریری اجازت‘ دیدی جاتی ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر رمضان کے دوران بازار لگانے والے تاجر کہاں سے آ جاتے ہیں اور اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رمضان گزرنے کے بعد کہاں غائب ہو جاتے ہیں! یکساں اہم سوال ’سٹریٹ چلڈرن‘ کا بھی ہے جو رمضان کے دوران بڑی تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اِن کی موجودگی کا خاطرخواہ جائزہ اور اِس جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ ہر خاص و عام میں شعور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے

کہ ’سٹریٹ چلڈرن‘ کہلانے والے یہ بے آسرا بچے بھی دیگر طبقات کی طرح یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ صورتحال کا سنگین پہلو یہ ہے کہ بے آسرا بچوں کی اکثریت جن کی کوئی دوسری شناخت نہیں ہوتی‘ جن کی رشتہ داریاں اور تعلق داریاں نہیں ہوتیں‘ اکثر جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے گروہوں اور دیگر جرائم پیشہ نیٹ ورکس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بے آسرا بچے عموماً 2 قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک بے گھر اور دوسرے غریب خاندانوں سے تعلق ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ یہ سڑکوں پر گزر بسر اور محنت مزدوری کرتے ہیں اور سڑک کنارے ہی سو جاتے ہیں۔ ایسے بچے معمولی اشیا فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ بھیک مانگتے ہیں اور قرب و جوار میں رہنے والے دن ڈھلے اپنے گھروں کو بھی لوٹ جاتے ہیں۔ بے آسرا بچے مختلف سماجی اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور بدلتے ہوئے سماجی حالات کا شکار ہوتے ہیں جیسا کہ والدین کی موت‘ معذوری‘ سوتیلے ماں باپ کا مجرمانہ سلوک‘ غربت اور ناخواندگی ایسے چند محرکات ہیں‘ جن کی وجہ سے ’سٹریٹ چلڈرن‘ کی آبادی بڑھتی رہتی ہے۔

یہ غیر معمولی مشکل حالات میں رہتے ہیں اور اِن کا تعلق معاشرے کے انتہائی کمزور طبقے سے ہوتا ہے۔ ان کے پاس تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ خوراک اور مناسب زندگی تک رسائی نہیں ہوتی اور یہ ہر قسم کے استحصال‘ تشدد‘ صدمے‘ منشیات اور متعدی بیماریوں کا باآسانی شکار ہو جاتے ہیں۔سال 2010 میں ’سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک)‘ نے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں پندرہ لاکھ ’سٹریٹ چلڈرن‘ ہیں۔ سال دوہزاراکیس سے متعلق ’چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو (سی پی ڈبلیو بی)‘ کے اعدادوشمار حیرت انگیز ہیں کہ صرف صوبہ پنجاب میں سٹریٹ چلڈرن کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ حکومت ایسے بچوں کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں سے باخبر نہیں ہے بلکہ کئی حکومتی منصوبے وقتاً فوقتاً بنائے جاتے ہیں لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ اُن پر اداروں کی توجہ کم ہو جاتی ہے بنیادی بات یہ ہے کہ سٹریٹ چلڈرن صرف حکومت کی نہیں بلکہ معاشرے کی بھی یکساں ذمہ داری ہے اور جب تک اجتماعی بے حسی اور اجتماعی جہالت کا خاتمہ نہیں ہوتا

اُس وقت تک غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اِن بچوں کی زندگی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے میں بچوں کے حقوق اور بچوں کے تحفظ بارے بنیادی معلومات عام کر سکتے ہیں اور اِنہیں ایسا کرنا چاہئے۔’سٹریٹ چلڈرن‘ کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے ملک گیر مہم کی ضرورت ہے اور ایسے بچوں کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کثیرالمیعادی حکمت عملیوں کی صورت نافذ ہونے چاہئیں۔ حکومتی سطح پر ’سٹریٹ چلڈرن‘ کے بارے میں منصوبہ بندی تحفظ اور فلاح و بہبود کا احاطہ کرتی ہے جبکہ سٹریٹ چلڈرن کے حقوق سے متعلق اور اِس پر مبنی ’نقطہئ نظر‘ سے صورتحال کو دیکھنا اور اِس سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستان 1990ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر سی) کی توثیق کئے ہوئے ہے‘ جس میں بچوں کی بقا‘ ترقی‘ تحفظ اور شرکت کے حقوق جیسے امور کی تفصیلات درج ہیں اور اِن سب کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح ”پاکستان کا آئین“ بچوں کے تحفظ کیلئے قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

بالخصوص آئین کا آرٹیکل 35 جس میں شادی‘ خاندان‘ ماں اور بچے کے تحفظ کا ذکر ہے۔ آرٹیکل 11 اور آرٹیکل 25 میں بھی بچوں کے تحفظ سے متعلق اضافی تفصیلات درج ہیں۔ آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 25 اے میں پانچ سے سولہ سال کی عمر تک مفت اور لازمی تعلیم کا بندوبست حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 25 کی تیسری شق بچوں کے تحفظ کیلئے خصوصی قوانین سازی کی سفارش کرتا ہے۔ آرٹیکل 37 (ای) ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ بچوں کیلئے اُن کی عمر اور اخلاقیات کے مطابق پیشوں کا بندوبست کرے اور آرٹیکل 38 (ایچ) بچوں کے سماجی تحفظ کے اقدامات کے بارے میں واضح ہدایات کا مجموعہ ہے لیکن اگر اِن سبھی آئینی پابندیوں کو بالائے طاق بھی رکھ دیا جائے اورانسانی ہمدردی اُور انسانی حقوق کے اصولوں کی نظر سے بھی دیکھا جائے تو سٹریٹ چلڈرن حکومت و عوام کی مجموعی (اجتماعی) ذمہ داری ہیں۔ اِن بچوں کو تحفظ‘ تعلیم‘ تربیت‘ روزگار اور ایک بامقصد زندگی بسر کرنے کیلئے سہارے کی ضرورت رہتی ہے لیکن اِس فرض کی ادائیگی تبھی ممکن ہوگی جب حکومت اور عوام کی سطح پر ’سٹریٹ چلڈرن‘ کہلانے والے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی نظر سے دیکھا جائے۔