بڑے خطرے میں اب سارا جہاں ہے

 گرد و پیش کی پل پل بدلتی صورت حال نے سانسوں کی ترتیب میں ایک ہل چل سی مچا رکھی ہے جتنا بھی خود کو غیر جذباتی رکھنے کی کوشش کی جائے کسی طور لا تعلق نہیں رہا جاسکتا۔ رہنا بھی نہیں چاہئے لیکن جب پانی بہت گدلا ہو جائے یا کر دیا جائے تو زیر آب کچھ بھی نظر نہیں آتا محض تماشائی بھی کوئی نہیں بن سکتا کیونکہ کل فرازؔ نے کہا تھا۔
 اس تماشے میں  الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں 
 ڈوبنے والوں کو زیر آب مت دیکھا کرو 
 اس لئے عجیب اعصاب شکن شب و روز میں یہ برکتوں بھرے دن گزر رہے ہیں، یہ بات تو اب طے ہے کہ ٹیلی ویژن آج کل گھر کے ایک اہم ممبر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس سے لاکھ بچنے کی کوشش کریں اس کی سننا بھی پڑتی ہے اور سو کام کاج چھوڑ کر اسے دیکھنا بھی پڑتا ہے اور ایک  دیکھنے رک گئے تو پھر اس کا جادو ہلنے نہیں دیتا۔ ہر گزرتے لمحہ ایک نئی خبر ”فوری خبر“ بن کر سکرین پر نظر آنے لگتی ہے۔ایک زمانے میں ریڈیو سے اور پھر اکلوتے سرکاری ٹی وی سے خبروں کے لئے ایک خاص وقت مقرر تھا۔ شاید تب خبریں ہمارے روزمرہ معمولات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی تھیں، سن لیں تو سن لیں نہ سنی تو اس کا کوئی قلق نہیں ہوتا تھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے ار گرد جو کچھ ہو رہا ہوتا تھا ہمارے لئے اس کی خبر رکھنا ضروری تھی کس کی خوشی میں شریک ہو نا ہے کس کو مبارک باد دینا ہے یا دکھ بھرے لمحوں میں کس کی ڈھارس بندھانی ہے

تب ہماری ہر سوچ اجتماعی تھی مگر پھر ہم نے خود اپنے خلاف ایسی سازش کی کہ اچانک ہماری دور کی نظر خراب ہو گئی اور ہم ذات سے آگے دیکھنے پر قادر ہی نہیں رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم آج کی نئی دنیا سے دل لگا بیٹھے جہاں اپنی ذات سے آگے دیکھنے کا رواج ہی نہیں ہے‘اور ’ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے“ جن کی تھیلی میں پہلے پہل وقت وقت کی خبریں تھیں مگر اب ہر لمحہ ایک نئی بریکنگ نیوز ہے، اور ان دنوں تو ایک اور عجب تماشا بھی اسی چھوٹی سکرین پر ہو رہا ہے، کہ ایک چینل کے پاس ایک خبر کی تفصیلات کچھ اور ہوتی ہیں اور اسی خبر کی تفصیل یا توجیہہ کہہ دیجئے وہ کچھ اور ہوتی ہے، جب کہ کسی تیسرے چینل کی طرف جایا جائے تو وہی کہانی وہی خبر کچھ نئے پہلو اور نئی پرتیں کھول رہی ہو تی ہے، اب کس کی بات کا یقین کریں اور کس کے تجزیہ کو درست مانیں،کچھ پلے نہیں پڑتا، ”ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے“ مانو سارے چینل ان دنوں میر انیس کے ہم زبان بن گئے ہیں۔
گل دستہ ئ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں 
 اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں 
غور کیا جائے تو کچھ کچھ کہانی سمجھ میں آ بھی جاتی ہے کہ کسی چینل کے اینکر خبر میں اپنے جذبات اور اپنی وابستگی بھی شامل کر دیتے ہیں تاہم یہ سب نہیں کرتے یہ سوچے بغیر کہ اس سے اس خبر کی اپنی حیثیت کتنی مشکوک ہو جاتی ہے، مگر ”کسی کی جان گئی کسی کی ادا ٹھہری“ اس کی کسی کو پروا نہیں، خبر کے حوالے سے گلزارؔ کی ایک بے حد عمدہ فلم ”اجازت“ کے ایک شگفتہ منظر میں نصیر الدین شاہ اپنی ساتھی فنکارہ سے کہتا ہے کہ ”میں نیوز کاسٹر بننا چاہتا ہے بن بھی گیا تھا مگرپھر چھوڑنا پڑا کیونکہ یک دن ایک خبر پڑھتے ہوئے میں نے اس میں اپنے جذبات ڈال دئیے تھے“ کشتی ڈوبنے کی خبر اس نے گلو گیر آواز میں سنائی تھی۔وہ ایک مزاحیہ سین تھا جسے ”کامک ریلیف“ کہا جاتا ہے مگر ان دنوں تو پوری سنجیدگی سے خبر میں اپنی سوچ،اپنی دوستیاں اپنے جذبات اور اپنی لابی کو خوش کرنے کی سعی شامل کر دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے چارہ ناظر بھی خواہی نخواہی کسی ایک چینل کا ہو کر دوسرے سے تعلق قطع کر دیتا ہے اور پھر ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد کے مابین بھی چینلز کی طرح مباحثہ شروع ہو جاتا ہے اور ہر ایک صریحا ًاپنے پسندیدہ چینل اور ان کے اینکرز کے گن گانے لگتا ہے اور کسی کو یہ خیال نہیں رہتا کہ ان چینلز کی خبریں،ان کے تبصرے ان کے تجزئیے تو محض اپنے چینل کی ”ریٹنگ“ بڑھانے کے لئے ہیں مگر جانے انجانے میں وہ ان کے اس کھیل میں شریک ہو گئے ہیں۔

یہ سب ریالٹی شوز ہیں جہاں دیکھتے ہی دیکھتے کوئی ایسا واقعہ یا ایسی بات کر دی جاتی ہے جو بظاہر عمومی ہوتی ہے مگر اچانک کیمرہ ایک کھیل کھیلنے لگتا ہے،پہلے شو کے ہوسٹ کا کلوز اپ دکھاتا ہے جو اپنے آنسو پوچھ رہا ہو تا ہے پھر شو کے شرکا ء کو باری باری دکھاتے ہیں کہ وہ بھی اس بات پر جیسے بہت رنجیدہ ہوں ملول ہو گئے ہوں مجبوراََ ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھا ہوا ناظر بھی ان کو روتا دیکھ کر افسردہ ہو جاتا ہے اور اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ بات تھی کیا جس پر سب اتنے ملول ہو گئے ہیں، یہ کیمرہ کی طاقت ہے ایک ایسا ’جھرلو‘ ہے جو چلتا نہیں چلا دیا جاتا ہے۔ سو ان دنوں عجیب سے اعصاب شکن شب و روز میں یہ برکتوں بھرے دن گزر رہے ہیں،بصارتیں اور سماعتیں ان چینلز کے پاس گروی رکھ کر ہم اپنے دکھ درد بھلائے بیٹھے ہیں، کہاں کی بیروزگاری سب کو کام پر لگا دیا گیا ہے،گرم گرم خبروں کے حصار میں بھی سانس لیتے ہوئے سب خوش ہیں،خوش نہ بھی ہوں تو ایک اچھی بھلی مصروفیت تو ہا تھ آ گئی ہے۔ یہ برکتوں بھرے دن بھی چینلز کے سنگ سنگ گزر رہے ہیں اور یار لوگ علامہ اقبالؔ کی طرح ان چینلز سے کہہ رہے ہیں 
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں 
 نہ گلہ ہے دوستوں سے نہ شکایت ِ زمانہ 
اگر کسی طور ٹی وی دیکھنے سے چند لمحوں کی فرصت مل جائے تو چھوٹی ڈیوائس کی چھوٹی سی سکرین پر سوشل میڈیا کا بیکراں سمندر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، جہاں الگ الگ جزیرے نیوز چینلز کی خبروں پر اپنے انداز میں ایسے ایسے کمنٹس دے رہے ہوتے ہیں کہ ایک لمحہ کو تو سر چکرا جاتا ہے، حیرانی ہوتی ہے کہ ادھر ٹی وی پر کوئی ”بریکنگ نیوز“ چلی اور اگلے ہی لمحہ سوشل میڈیا پر اس خبرکے حوالے سے ایسے ایسے طنزیہ، مزاحیہ اور سنجیدہ غیر سنجیدہ کمنٹس پوسٹ ہو جاتے ہیں کہ اپنے لوگوں کی ذہنی پرواز کی داد دئیے بغیر نہیں رہا جاسکتا، ایسے ایسے مضامین اور نزدیک اور دور کی کوڑیاں وہ لے کر آتے ہیں کہ رشک آتا ہے۔ خصوصاََ سنجیدہ خبروں کے شگفتہ اور مزاحیہ تجزیوں سے ہماری ذہانت اور فطانت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو تا،اچھی بھلی خبر سے وہ کھلواڑ کھیلا جاتا ہے اور لمحوں لمحوں میں ایسی پیروڈی بنا لی جاتی ہے کہ توبہ ہی بھلی،اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم ایک ”ریلیکسڈ“ قوم ہیں آ ج ہی موجودہ حالات میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوتی دیکھی جس نے عجب لطف دیا آپ بھی دیکھئے فرماتے ہیں ”موجودہ حالات میں کبھی کسی سے بحث نہ کرنا، اگر کوئی کہے کہ ہاتھی اڑتا ہے تو اس کو بتائیں کہ جی ہاں آج صبح ہمارے گھر کی تار پر بیٹھا تھا“ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہم اس وقت ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں مومن خاں شوق کے ہم زباں بنے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ 
ہمیں روشن ضمیری دے خدایا
 بڑے خطرے میں اب سارا جہاں ہے