ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تلخ سہی لیکن بہرحال حقیقت و ضرورت یہی ہے کہ پاکستان کے غذائی تحفظ کو بہرحال و عملاً ممکن بنانے کے لئے اِس شعبے میں ترجیحی بنیادوں پر درجہ بندی کی جائے پاکستان میں متوسط طبقے کی ایک بہت بڑی آبادی ہے جو اپنی کمائی کا ایک اہم حصہ خوراک (یعنی آٹے) پر خرچ کرتی ہے لیکن اِس اہم جنس کی قیمت میں مہنگائی (افراط زر) کے ساتھ اِس حد تک اضافہ ہو چکا ہے کہ غریبوں کے ساتھ آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقات بھی پریشان ہیں کیونکہ وہ حسب ضرورت گندم کی خریداری کی قیمت ادا نہیں کر سکتے اور دوسری طرف غذائی عدم تحفظ ہے یعنی گندم کی مقامی پیداوار کم جبکہ قومی ضرورت زیادہ ہے اور اِس سے بنیادی طور پر پوری معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔زرعی پیداوار پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ”یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ایگری کلچر‘‘نے آئندہ برس 2023ء میں پاکستان کے لئے گندم کی ضرورت (طلب) کا تخمینہ جاری کیا ہے جو ماضی کے دستیاب اعدادوشمار اور آبادی کے تناسب کی بنیاد پر مرتب کئے جاتے ہیں اور چونکہ اِن اعدادوشمار کو مرتب کرنے میں صرف کسی ملک کی پیداواری صلاحیت یا بوائی ہی کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ خلائی سیاروں سے تصاویر کے ذریعے کل کاشت کے رقبے‘ بیج کی قوت مدافعت‘ موسمی اثرات‘ پانی کی کمی بیشی اور پیداواری ضروریات کے استعمال جیسے محرکات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے اِس لئے یہ سائنسی بنیادوں پر زمینی حقائق کے تجزیئے پر مبنی یہ جائزہ رپورٹ شاذونادر ہی غلط ثابت ہوتی ہے۔ اِس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کو دنیا میں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے ادارے بھی کسی سیزن کی متوقع زرعی پیداوار کے بارے میں اعدادوشمار مرتب کرتے ہیں جو اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں لیکن بہرحال ایک پیمانہ اپنے قومی اداروں کی علم و دانش بھی ہے جس کا تذکرہ اور موازنہ ہر سال گندم کی قلت کی صورت ہر خاص و عام کے علم میں ہے۔ بہرحال اگر پاکستان کے اپنے اور امریکی ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کو ضم کر کے دیکھا جائے تو آئندہ برس پاکستان کی ایک سال کے لئے گندم کی ضرورت (طلب) 27 سے 30 ملین میٹرک ٹن ہوگی۔ امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ طلب27.6 ملین میٹرک ٹن رہے گی جبکہ کاشتکاروں کی تنظیم کے مطابق یہ طلب 30 ملین میٹرک ٹن رہے گی اور پاکستان کو اُمید ہے کہ آئندہ سال کے لئے 28.9 ملین میٹرک ٹن گندم کی پیداوار حاصل ہوگی جس کا مطلب ہے کہ امریکی اندازوں کے مطابق پاکستان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ گندم ہوگی جبکہ غیرحکومتی کاشتکاروں کی تنظیم کے مطابق طلب پیداوار سے زیادہ رہے گی اور آئندہ سال بھی پاکستان کو گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں فی کس گندم کی کھپت زیادہ ہے اور 72 فیصد پاکستانی اپنی یومیہ خوراک میں گندم سے بنی کوئی نہ کوئی چیز لازماً استعمال کرتے ہیں۔ یوں اوسطاً ہر پاکستانی سالانہ 124 کلوگرام گندم سے بنی اشیاء استعمال کرتا ہے۔ اگر فیصلہ ساز درآمدات جیسے آسان فیصلے کی بجائے زرعی شعبے کو توجہ دینے جیسے مشکل راستے کا انتخاب کریں۔ کامیابی یقینی ہے کیونکہ ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔“