یہ انیس مارچ کا واقعہ ہے بالاکوٹ کی جنت نظیر وادی بھونجہ میں صبح سویرے بچے اور بچیاں سکول کی جانب رواں دواں تھیں یہ معمول کاہی ایک دن تھا مگر ساتویں جماعت کی ایک طالبہ اور اس کے گھرانے کے لئے قیامت خیز ثابت ہونے والا تھا سکول کی طرف جانے والی طالبہ انعم نے ماں کو کہہ دیاتھاکہ وہ آج وقت پر آنے کی کوشش کرے گی لیکن اس کو معلوم نہ تھاکہ وہ گھر سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی ہے سکول جانے کے لئے راستہ میں نالے پر پل نہ ہونے کی وجہ سے حسب معمول بچوں نے نالہ میں اتر کر ہی پار پہنچنے کی کوشش کی باقی تو کامیاب ہوگئے مگر طغیانی کے سبب پانی کی مقدار میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انعم نالہ عبور نہ کرسکی اورپانی میں بہہ گئی اس حوالہ سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور بھونجہ سے تعلق رکھنے والے ہمار ے دوست ذوالفقارعلی کے مطابق ہائی سکول بھونجہ میں زیر تعلیم درجنوں طلباء وطالبات روزانہ نالہ عبورکرکے ہائی سکول بھونجہ پہنچتے ہیں جن میں تیرہ سالہ انعم بی بی دختر محمدانور بھی شامل تھی جو تین کلومیٹر کاپیدل سفرطے کرکے سکول آتی تھی
تاہم انیس مارچ کو حصول علم کی یہی کوشش نالہ عبور کرتے وقت انعم کی جان لے گئی مقامی آبادی کے مطابق یہ سانحہ بھونجہ سے سابق بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ گاؤں سے سینکڑوں ووٹ لے کر اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے والے نمائندوں کی کارکردگی پرسوالیہ نشان چھوڑگیاہے کہ وہ حصول علم کے لئے دوردرازمقامات سے آنے والے طلباء کے لئے ایک پل بھی تعمیر نہ کرسکے جس سے گزرکروہ سکول پہنچ سکیں‘دوسری جانب گھر سے سکول جانے والی طالبہ کی اچانک رحلت نے سب کو رنجیدہ کردیا‘ اس سلسلہ میں بھونجہ کے رہائشیوں کاکہناہے کہ حصول علم کے لئے آنے والے ان طلباء کے لئے پل کی تعمیر اشدضروری ہے اگر بروقت پل کی تعمیر مکمل نہ کی گئی تو ہم ہرفورم پر صدائے حتجاج بلندکرینگے جس کی ذمہ داری متعلقہ حکام پر ہوگی جس وقت یہ سانحہ رونما ہوا اس وقت انعم بی بی کاوالد مزدور ی کے سلسلہ میں صوبہ سے ہی باہر تھا وہ بیچارہ جب واپس آیا تو اس کی دنیا اجڑ چکی تھی اس کی جان سے پیاری بیٹی بہتر مستقبل کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوچکی تھی اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہوئی کہ کسی بھی سرکار ی اہلکارا ور کسی بھی منتخب نمائندے کو اس بچی کے لواحقین کے پاس جانے کی توفیق ہی نہیں ہوسکی یہ اجتماعی بے حسی کی بولتی تصویر ہے گویا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
وادی بھونجہ کا شمار پاکستانی کی خوبصورت ترین وادیوں میں کیاجاسکتاہے مگر اس کو عشروں سے نظر اندازر کھاگیاہے نہ تو حکومت کی طرف سے کبھی اس وادی کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی نہ ہی ماضی میں مقامی لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا۔مقامی نوجوانوں کاگلہ ہے کہ عوامی نمائندوں کی نا اہلی اورعدم دلچسپی کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں کی نظروں میں تاحال نہیں آسکاہے بھونجہ ایک ایسی واد ی ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں جن کے تیز دھار دودھیا پانی مسلسل بہتاچلا جاتاہے پھریہی پانی بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے ہوئے آ خرکار فرید آباد کے مقام پر دریائے کنہار میں شامل ہوجاتاہے اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں، جھاگ اڑاتے پانیوں اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وادی سے بہتر مقام شاید ہی کوئی اور ہو۔ اس وادی کا صدر مقام فرید آباد بھونجہ ہے۔ وادی دو حصوں مشتمل ہے۔ فرید آباد سے ناڑ گلی (مگری) تک جیپ سڑک موجود ہے مگر اس سے آگے وادی کلہا تک ٹوٹا پھوٹا، بل کھاتا، کچا اور کہیں سے پتھریلا پیدل رستہ ہے جو آخری ٹاپ راجھی پوگی تک جاتا ہے۔ وہاں سے آگے ایک طرف منور ویلی ہے دوسری جانب آزاد کشمیر سے ملحقہ علاقے ہیں۔بالاکوٹ سے اس وادی کافاصلہ کم وبیش چالیس کلومیٹر بنتاہے یہ بنیاد ی طورپر یونین کونسل کیوائی کاحصہ ہے
تاہم اس کی آبادی کیوائی سے کہیں زیادہ ہے ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے گرمیوں میں موسم انتہائی خوشگوار رہتاہے بارشیں بہت ہوتی ہیں جبکہ سردیو ں میں بہت زیادہ برفباری ہوتی ہے بعض مقامات پرتو چار سے چھ فٹ تک برف پڑتی ہے فرید آباد سے باغ تک پانچ کلومیٹر جبکہ باغ سے پھر لڑی تک چار کلومیٹر کاراستہ ہے یہ چار کلومیٹر کاسارا راستہ نالے میں سے گذرتاہے اوربہت ہی خراب حالت میں ہے یہ راستہ گذرنے والوں کا امتحان لیتاہے گویا باغ سے آگے جانے و الے مقامی لوگوں کو انتہائی مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔باغ کے بعد پھر لوگوں نے حکومت اور منتخب نمائندوں سے مایوس ہوکراپنی مددآپ کے تحت دوسڑکوں کی تعمیر کامشکل کام شروع کیاہواہے ہمارے دوست اور مقامی صحافی ذوالفقار علی کاکہناہے کہ ”اس واد ی میں صحت وتعلیم کی سہولیات کی انتہائی کمی ہے بچے اوربچیاں سکول آنے جانے کے لئے کئی کئی گھنٹے کاپیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں علاقہ کو اس حد تک نظرانداز رکھاگیاہے کہ گیارہ سال قبل وادی کے داخلی راستے کا پل سلائیڈنگ کی زد میں آکر تباہ ہوا جس کے بعدبغیرکسی سروے کے اسی سلائیڈنگ ایریا میں ہی لوہے کاپل نصب کیا گیا جو اگلے سال ہی پھر سلائیڈنگ کی زد میں آکرگیارہ سال سے ناکارہ پڑاہواہے مگر ابھی تک سڑک کے اس حصہ کی بحالی کے لئے کوئی کام شروع نہیں کیاجاسکاہے“اوچری کے مقام پر زلزلہ کے بعد تعمیر ہونے والا یہ پل لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر تباہ ہوا جس کی پلیٹیں لوگ اکھاڑ کرلے گئے ہیں
۔پل کی بحالی پر بھی لاکھوں روپے خرچ ہوچکے ہیں مگر پل جوں کا توں ہے اس حوالہ سے علاقہ سے منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی سید احمد حسین شاہ جو اس وقت وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے بہبود آبادی ہیں نے کوئی دس ماہ قبل رابطہ پر بتایا تھا کہ فرید آباد سے باغ تک سڑک کی تعمیر کے لئے اس بار تین کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ پل کی تعمیر کے لئے بھی ایک کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ان کایہ بھی کہناتھاکہ لڑی سے آگے مقامی لوگوں نے ٹاپ تک اپنی مد د آپ کے تحت جو سڑک بنائی ہے اس کی بہتری کے لئے بھی حکومت اس بار اپنا حصہ ضرور ڈالے گی مگر دس ماہ بعد بھی صورت حال جوں کی توں ہے جو انتہائی افسوسناک امر ہے اس وقت پورے گا ؤں میں ایک بوائزہائی سکول ہے جس میں گاؤں کے طلباء اور طالبات زیر تعلیم ہیں حکومت کے لئے بھونجہ میں بہنے والے برساتی نالہ پرکوئی بھی پختہ پل نہیں ہے عوام نے اپنی مددآپ کے تحت عارضی پل تعمیر کررکھے ہیں کئی مقامات پر پل نہیں ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو پیدل نالہ عبورکرناپڑتاہے۔ طالبہ انعم انور بھی نالہ عبورکرکے سکول پہنچنے کی کوشش میں ڈوب کر جاں بحق ہوئی۔رابطہ سڑک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے عوام کو شدید مشکلات ہیں۔مقامی آبادی کے مطابق گاؤں کیلئے دو بوائز اور ایک گرلز ہائی سکول کی ضرورت ہے۔اللہ کرے کہ پل کی تعمیر اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لئے مزید کسی بچے یابچی کی قربانی کی ضرورت پیش نہ آئے۔