شاعر فیض صاحب کا ایک حوالہ شاعری بھی ہے‘ اُن کی لکھی مشہور و شاہکار نظم میں ترغیب دی گئی کہ ”بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے …… جسم و جاں کی موت سے پہلے“ اور یہی تحریک پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ و مرکزی تنظیموں اور آزادیئ اظہار کے حامیوں کو ”اسلام آباد ہائی کورٹ“ لے گئی جہاں سے ملنے والے انصاف (فیصلے) پر مبارکبادوں کا تبادلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر اظہار خیال کے یہ دراز سلسلے ”الیکٹرانک جرائم کی روک تھام سے متعلق ایک (ترمیمی) قانون (آرڈیننس) 2022ء“ سے متعلق ہے جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے کی جانے والی ترامیم غیر آئینی ہیں‘ آزادیئ اظہار کے تحفظ کیلئے عدالت سے رجوع کرنے والوں میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)‘ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)‘ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای)‘ ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز وغیرہ سمیت صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں شامل تھیں‘ جن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ”جمہوریت کی تقویت کیلئے ضروری ہے کہ میڈیا کو آزادیئ اظہار کرتے ہوئے اپنی حراست یا اپنے خلاف سخت سزا کا خوف نہ ہو اور یہ بغیر کسی ذہنی و آئینی دباؤ آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کے حق کا استعمال کریں اور یہ انتہائی ضروری امر ہے۔“
ذہن نشین رہے کہ ”پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء (پیکا)“ کو صحافیوں کی جملہ تنظیموں نے مسترد کرتے ہوئے اِسے ”شدید تنقیدی قانون“ قرار دیا۔ پیکا آرڈیننس میں بعدازاں کی جانے والی ترامیم نے اِسے زیادہ متنازعہ بنا دیا تھا‘ جس کے خلاف صحافیوں اور صحافتی اداروں کی نمائندہ تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا۔آزادیئ اظہار اور آزادیئ صحافت دو الگ الگ موضوعات نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ حوصلہ افزا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے پیکا قانون سے متعلق اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہا ہے لیکن سیاست دانوں کا طرزعمل اور سوچ اُس وقت تبدیل ہو جاتی ہے جب وہ حکومت میں آتے ہیں۔ وطیرہ رہا ہے کہ حزب اختلاف کے طور پر وہ جن کاموں کی مذمت کرتے ہیں برسراقتدار آنے کے بعد وہی امور سرانجام دیتے ہیں۔
بہرحال اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ایک مرتبہ پھر ثابت ہوگیا ہے کہ آزادیئ اظہار اور آزادیئ صحافت کو متاثر کرنے والا کوئی بھی قانون اور ضابطہ جمہوریت کا جز نہیں بن سکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قطعی طور پر ’مادر پدر آزاد صحافت‘ یا ’اندھا دھند آزادیئ اظہار‘ کی حمایت نہیں کرتا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد بھی صحافت کی غیرجانبداری اور اسلوب کی شائستگی برقرار رکھنے کیلئے ادارہ جاتی و انفرادی ذمہ داریاں موجود رہیں گی‘ جو کسی اضافی تعارف یا تشریح کی محتاج نہیں۔ اظہار کا کوئی بھی ذریعہ یا وسیلہ استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کی آزادی اُس مقام پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے شخص کی ناک شروع ہوتی ہے۔ آزادی اظہار کی لغوی تشریح یہ ہے کہ ہر خاص و عام کو سنسرشپ‘ ضبط یا آئینی سزا کے بغیر ’رائے کے اظہار‘ کا اختیار اور حق حاصل ہو۔ لیکن یہ شعور اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ آزادیئ اظہار کے خلاف کسی بھی کوشش پر صحافی اور صحافتی تنظیمیں متحد ہو جاتی ہیں ۔