اعتماد کاووٹ 

گذشتہ روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھاری اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا اس سے قبل وزیر اعلیٰ کے خلاف جمع کرائی جانے والی تحریک عد م اعتماد واپس لے لی گئی تاہم وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیاکہ اپوزیشن کو حقیقت بتاہی دی جائے ِاسی لیے انہوں نے اعتماد کاووٹ لینے کافیصلہ کیاجس کے حق میں 88ووٹ آئے جبکہ محض تین اراکین نے مخالفت میں ووٹ دیا یوں اپوزیشن کے تحریک عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل گئی جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی تو ان دنوں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ پی ٹی آئی کے پینتالیس اراکین ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اس وقت بھی حکومت نے عملی طورپر جواب دیتے ہوئے اگلے روز ہی صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کااجلاس منعقد کیا جس میں پارٹی کے تقریباً تمام اراکین صوبائی اسمبلی موجود تھے مگر اپوزیشن جاعتیں بھی ڈٹی ہوئی تھیں چنانچہ مرکز میں صورت حال کشیدہ ہونے لگی تو سب کی نگاہیں خیبرپختونخواسمبلی پر مرکوز ہوگئیں یہ کہاجانے لگاتھاکہ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان آخری پتہ کھیلتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں بھی تحلیل کرائیں گے یہ بھی چہ میگوئیاں بالخصوص عدالتی فیصلے کے بعد جاری تھیں کہ پی ٹی آئی کی طرف سے قومی اسمبلی سمیت چارو ں صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر غور جاری ہے ان حالات میں ایک بارپھر صوبہ میں اپوزیشن متحرک ہونے لگی اور آخرکا ر جمعہ کو اس کی طرف سے وزیر اعلیٰ محمودخان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی اپوزیشن جماعتوں نے جواز پیش کیا اس کامقصد محض اسمبلی تحلیل کاراستہ روکناہے۔
 اگر اعدا د وشمار پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسمبلی میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے حکومت کی دوتہائی کے مقابلہ میں اپوزیشن کے اراکین کی تعداد ایک تہائی بنتی ہے جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد بارہ ہے جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی تعداد چار ہے جمعیت علماء اسلام کے اراکین کی تعداد تین ہے متحدہ مجلس عمل کے اراکین کی تعداد 14 ہے مسلم لیگ نون کے اراکین کی تعداد سات ہے مسلم لیگ ق کا ایک رکن ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ اراکین ہیں صوبائی اسمبلی میں آزاد اراکین کی تعداد تین ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد چورانوے ہے آزاد اراکین میں سے ایک تو پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ دو اس وقت بھی حکومت کے حامی تصور کیے جاتے ہیں گویا اب اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف وہ اس وقت ایوان میں تاریخی اکثریت حاصل ہے اپوزیشن والے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ مرکز میں بڑی تبدیلی کی صورت میں شاید پی ٹی آئی کا کوئی فارورڈ بلاک صوبائی اسمبلی میں تشکیل پاکر ساری صورت حال کی تبدیل کرکے رکھ دے مگر فی الوقت اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلہ میں جس طرح سے پی ٹی آئی نے بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اس کے بعد اس کے اراکین اسمبلی کی طرف سے بغاوت کے امکانات بھی ختم ہوگئے ہیں۔
پیر کو جب اسمبلی کااجلاس شروع ہوا تو اعدم اعتماد کی تحریک ایجنڈ ے کاحصہ تھی حکومت نے اجلاس بھی اچانک اسی وجہ سے طلب کیاتھا تاکہ عد م اعتماد کی حقیقت سامنے لائی جاسکے چنانچہ جب اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن نے اچانک یہ کہہ کر عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کااعلان کردیاکہ ہمارا مقصد محض اسمبلی تحلیل کاراستہ روکناتھا اب جبکہ ہمیں اطمینان ہوچکاہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل نہیں کی جارہی تو ہم بھی عدم اعتماد کی تحریک واپس لیتے ہیں تاہم بات یہاں تک محدود نہیں رہی اچانک حکومت کی طرف سے رولز معطل کرکے وزیر اعلیٰ پر اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کااعلان کیاگیا اورجب قرارداد منظوری کے لیے پیش ہوئی تو اس کے حق میں اٹھاسی ووٹ آئے یوں حکومت نے سب کے منہ بندکردیئے ہیں مقام حیرت تویہ رہاکہ وزیر اعلیٰ کی مخالفت میں محض تین ووٹ آسکے حالانکہ ا س موقع پر ایوان میں اپوزیشن کے تیس سے زائد اراکین موجود تھے مگر کسی نے اس قرارداد کی مخالفت نہیں اپوزیشن کی طرف سے ایک روز قبل ہی یہ دعوے سامنے آئے تھے کہ حکومت کے سترہ ایم پی ایز کے انکے ساتھ رابطے ہیں مگر یہ تمام دعوے گذشتہ روز ہوا میں تحلیل ہوگئے گویا پی ٹی آئی نے مرکز کاجواب صوبہ میں تو دے دیاہے تاہم پھربھی یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ملک میں اسمبلیوں کامستقبل کیاہوگاپی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے تو مستعفی ہونے کااعلان کردیاہے اب دیکھنایہ ہے کہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے کب دیئے جاتے ہیں اگر خیبرپختونخوااسمبلی سے پی ٹی آئی کے تمام اراکین مستعفی ہوجاتے ہیں تو پھر اسمبلی خود بخود تحلیل ہوجائے گی اور ایک صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے پھر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ کاخدشہ ہے۔