خیبر پختونخوا حکومت نے کورونا وبا کی نئی ممکنہ لہر کے پیش نظر‘ کسی بھی ”فوری خطرے“ سے نمٹنے کیلئے پہلے سے جاری ہنگامی حالت (ہیلتھ ایمرجنسی) میں مزید تین ماہ کی توسیع کردی ہے۔ حکام کے مطابق کورونا وبا پھیلنے اور رپورٹ ہونے کے واقعات اگرچہ کم ہوئے ہیں اور کورونا وبا سے اموات کی شرح میں بھی غیرمعمولی کمی آئی ہے لیکن دیگر کئی ممالک کی طرح کورونا وبا کی نئی قسم کے ممکنہ تیزی سے پھیلاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ میں جون تک توسیع کردی گئی ہے۔محکمہ صحت نے کورونا پھیلنے سے پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لئے طبی اور سرجیکل سپلائی کی جلد خریداری کیلئے بھی اقدامات کا حکم دیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا میں پہلی مرتبہ ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ کا نفاذ فروری دوہزاربیس میں کیا گیا تھا جو ”پبلک ہیلتھ (سرویلنس اینڈ رسپانس) ایکٹ دوہزارسترہ“ پر عمل درآمد تھا اور اِس کے بعد سے ہیلتھ ایمرجنسی میں وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی رہی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر شاہین آفریدی کے مطابق ”کورونا وبا کے پھیلنے کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے‘ جس کی وجہ سے محکمہئ صحت نے خریداری کے عام طریقہ کار کے مطابق ذاتی حفاظتی آلات (پی پی ایز)‘ ادویات اور دیگر اشیاء کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے تاہم عالمی ادارہ صحت اور سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول امریکہ سے مشاورت کے بعد ہیلتھ سروسز کے محکمے نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ہیلتھ ایمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کرے۔“ طبی ماہرین یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے کیسز اگرچہ کم ہوئے ہیں لیکن ایک تو اِن کی کچھ نہ کچھ تعداد رپورٹ ہو رہی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ کورونا وبا ابھی ختم نہیں ہوئی یعنی خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وبا پر نظر رکھی جا رہی ہے تاکہ کیسز کی تعداد اور وبا کے مرکز کا علم ہو سکے۔ کسی علاقے میں کورونا وبا کے کیسز زیادہ رپورٹ ہونے کی صورت وہاں سمارٹ لاک ڈاؤن اور گھر گھر ویکسی نیشن کے عمل کو توسیع دی جاتی ہے اور یہ دونوں حکمت عملیاں کورونا وبا کے خلاف کارگر ثابت ہوئی ہیں‘ جن کی عالمی اداروں نے بھی تعریف کی ہے۔
کورونا وبا کے بارے میں دنیا کو علم دسمبر دوہزاراُنیس سے ہوا اور یہ وبا فروری دوہزاربیس میں پاکستان پہنچی جس کے بعد سے وہ شہر زیادہ متاثر ہیں جہاں بیرون ملک سے ہوائی پروازیں آتی تھیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ کورونا وبا کی نئی اور مختلف اقسام ظاہر ہو رہی ہیں‘ جو زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نے ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ہیلتھ ایمرجنسی میں کورونا وبا کے بارے میں عوامی شعور اُجاگر کرنا بھی شامل ہوتا ہے تاہم خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں کورونا احتیاطی تدابیر (ایس اُو پیز) پر خاطرخواہ سختی و پابندی سے عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔خیبرپختونخوا میں ہیلتھ ایمرجنسی کو طول دینے کا بنیادی مقصد بیماری کے کسی ممکنہ شدید وار کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری آلات اور دیگر وسائل کی دستیابی یقینی بنانا ہے چونکہ حکومتی سطح پر خریداری کا طریقہ کار فوری نہیں ہوتا اِس لئے ہنگامی حالات کا نفاذ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے حکومتی خریداری پر عائد بہت سی پابندیاں اور شرائط نرم ہو جاتی ہیں اور جو ادویات درکار ہیں اُنہیں کم سے کم وقت میں خرید لیا جائے۔
ایسا کرنا اِس لئے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ کیونکہ وبا پھیلنے کے بعد ایک تو ادویات حسب طلب ملنا مشکل ہوجاتا ہے اور دوسرا اِن کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ موجودہ ہیلتھ ایمرجنسی میں توسیع کی منظوری وزیر اعلیٰ نے محکمہ صحت کی سفارش پر دی تاکہ سرکاری علاج گاہوں کیلئے مطلوبہ ادویات اور آلات خریدے جا سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ کورونا وبا کے علاج کیلئے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کی سختی سے پاسداری کے نفاذ کیلئے انتظامیہ کی سرگرمیوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ لاک ڈاؤن‘ دکانیں اور تجارتی مراکز سربمہر کرنا اور بازاروں میں بھیڑبھاڑ روکنا‘ اجتماعات محدود کرنا اورماسک کے استعمال کو یقینی بنانا‘ سماجی فاصلے اور ہاتھ دھونا ہیلتھ ایمرجنسی کی جزئیات میں شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کورونا ویکسینیشن (ٹیکہ کاری) سے متعلق ایک توسیعی پروگرام (ای پی آئی) بھی جاری ہے جس کے صوبائی نگران ڈاکٹر عارف کا کہنا ہے ”رمضان المبارک کے دوران بھی کورونا ویکسینیشن جاری رہے گی تاہم اِس مرتبہ ویکسی نیشن کے اوقات اور طریقہ تبدیل کر دیا گیا ہے کہ تراویح سے پہلے یا بعد میں ٹیکہ لگانے کیلئے مساجد میں ٹیمیں بھیجی جا رہی ہیں کیونکہ بہت سے لوگ روزے کی حالت میں ویکسی نیشن نہیں کروانا چاہتے۔ اِس لئے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے افطاری کے بعد ویکسی نیشن کی جا رہی ہے۔
اِس سلسلے میں علمائے کرام کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں یومیہ قریب چالیس ہزار افراد کورونا ویکسی نیشن کے ذریعے محفوظ ہو رہے ہیں اور اِس مقصد کیلئے ایک سے زائد مراکز قائم ہیں۔ حفاظتی ٹیکہ جات کے حوالے سے شمالی وزیرستان‘ صوابی‘ مردان‘ نوشہرہ اور دیگر اضلاع کی بعض تحصیلوں میں صورتحال تسلی بخش نہیں‘ جس کی وجہ سے عید الفطر کے بعد مذکورہ اضلاع میں ”گھر گھر کورونا ویکسی نیشن مہم“ چلائی جائے گی۔ محکمہئ صحت کے فیصلہ سازوں کیلئے یہ بات تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے کہ ویکسی نیشن کا عمل خاطرخواہ تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ اب تک خیبرپختونخوا کی 73 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین کی پہلی خوراک جبکہ 53 فیصد آبادی کو دوسری خوراک دی جاچکی ہے اور یومیہ نئے کورونا متاثرین کی تعداد بیس ہے۔ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے مجموعی طور پر 6 ہزار 322 افراد انتقال کر چکے ہیں۔