قومی غذائی خودکفالت

حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو معاشی مسائل اُس وقت تک موجود (برقرار) رہیں گے‘ جب تک زرعی شعبے کی سرپرستی کرتے ہوئے قومی سطح پر غذائی خودکفالت کے مقررہ بلند اہداف عملاً حاصل نہیں کر لئے جاتے اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے کہ جب تک بنیادی ضرورت کی خوردنی اشیاء  جیسا کہ دال چاول گندم اور سبزی کی مقامی پیداوار زیادہ نہیں ہو گی اُس وقت تک معاشی عدم استحکام طاری (حاوی) رہے گا۔ زرعی شعبے کو نظرانداز کرنا ’بڑی (نمایاں) غلطی‘ ہے اور اِسی غلطی کی وجہ سے پاکستان اِس نہج (مقام) تک آ پہنچا ہے کہ اب بنیادی ضرورت کی غذائی اجناس جو کہ پاکستان میں باآسانی پیدا کی جا سکتی ہیں اور ہوتی بھی رہی ہیں لیکن اب اُنہیں سال کے کسی نہ کسی حصے میں ہنگامی بنیادوں پر درآمد کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ درآمدات کیلئے غیرملکی سرمائے میں ادائیگی کرنا ہوتی ہے اور درآمدات چاہے وہ خوردنی اجناس ہی کیوں نہ ہوں اُن کی قیمتیں مقامی پیداوار کے مقابلے (تناسب سے) زیادہ رہتی ہیں! برآمدات کم ہو سکتی ہیں لیکن اگر زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور یہ نکتہ فیصلہ سازوں کے پیش نظر رہنا چاہئے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار برس کے دوران قومی سطح پر بنیادی استعمال کی اشیائے خوردونوش (سی پی آئی فوڈ سب انڈیکس) میں 55فیصد اضافہ ہوا یعنی اِسی قدر پاکستان کی کرنسی کی قدر میں کمی بھی ہوئی ہے۔ مذکورہ عرصے کے دوران بنیادی اشیائے خوردونوش کے عروج اور اضافے نے درآمدات پر ضرورت سے زیادہ قومی انحصار بڑھایا ہے جو سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے کئی دور گزرے ہیں بالخصوص کورونا وبا کے دور میں کئی ممالک میں اجناس کا بحران پیدا ہوا لیکن پاکستان میں اِس بحران کے زیادہ نقصان نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ زراعت کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی جو اگرچہ آبادی کی ضروریات کے لئے کافی نہیں تھی لیکن اِس نے معاشی بوجھ بڑی حد تک اُٹھایا اور بنیادی غذائی اجناس کی قیمتیں اعتدال پر رہیں البتہ مذکورہ وبا کے عرصے میں زراعت کا بہت نقصان ہوا جو کھاد کی قلت اور گرانی کی وجہ سے تھا۔ مہنگائی کے اپنے اشارے اور اعشاریئے ہیں جن کی ناپ تول کر کے اِس کی شرح کا تعین کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ادارہ شماریات کے مطابق تین سال میں پکی ہوئی دال کی ایک پلیٹ کی قیمت میں ایک ڈالر سے کم اضافہ ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ ایک امریکی ڈالر کی قدر 180 پاکستانی روپے ہے۔ اِسی طرح سال 2018ء میں چنے کی دال جو سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے کی قیمت معمول پر رہی اور اِس میں اضافہ ہوا لیکن اِس اضافے میں کمی بیشی دیکھی گئی۔ سال دوہزاراٹھارہ سے سال دوہزاراکیس تک کے سفر میں اس کی قیمت تقریباً تیس فیصد کمی واقع ہوئی۔ درمیانی مدت کے دوران دالوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے جو مالی سال دوہزارتیرہ میں صفر اعشاریہ پچھتہر ملین ٹن سے کم ہو کر مالی سال دوہزاراکیس تک صفر اعشاریہ تیئس ملین ٹن سے کچھ کم رہ گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال دوہزاربائیس کے دوران دالوں کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں شاید ہی زیادہ ہو۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دال چنا مقامی طور پر استعمال ہونے والی دالوں کے کل تناسب کا چالیس فیصد ہے‘ اِس دال کی قیمتوں میں نسبتاً استحکام رہا جو اپنی جگہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ لائق توجہ ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران پاکستان کی دال چنا پیداوار میں خود کفالت ختم ہوئی ہے اور اب اِس دال کی پیداوار قومی ضرورت کے مطابق صرف پچاس فیصد رہ گئی ہے اور باقی پچاس فیصد درآمد کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود نہ صرف دال کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اِس کی قیمتوں میں آٹے یا چینی جیسی دیگر اجناس کی قیمتوں کے مقابلے میں بہت سست رفتاری سے اضافہ ہوا جو باسمتی چاول کی قیمتوں میں اضافے سے مماثلت رکھتا ہے۔ دال اور دیگر خوردنی اجناس کی درآمدات کا فیصلہ حکومت سے زیادہ ایک خاص کاروباری طبقے کی مرضی سے ہوتا ہے۔ حکومت نے دو شعبوں میں مداخلت کرنا بند کر دی ہے ایک ڈالر کی قیمت کا تعین اب مارکیٹ کرتی ہے اور دوسرا اجناس کی درآمد کس قدر کرنی ہیں اور اِس کی قیمت کیا ہوگی اِس کا تعین بھی ’آزاد مارکیٹ‘ ہی کرتی ہے۔ درحقیقت حکومت ایک طرح کے مقابلے کا ماحول بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور مختلف نجی ادارے ایک دوسرے سے زیادہ تجارت کرنے کیلئے قیمتوں کو کم رکھتے ہیں لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اِس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا واحد ذریعہ بیرونی قرضہ جات ہیں جس کی وجہ سے دال ہو یا چاول‘ گندم ہو یا چینی اور دیگر اجناس اِنہیں درآمد کرنے پر زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔ ادارہئ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان سالانہ صفر اعشاریہ چھتہر ارب ڈالر مالیت کی مختلف دالیں درآمد کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے دالوں کی برآمدات کم کرنے کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں لیکن اگر اِس طرح مالیاتی سختی اشیائے خوردونوش پر کی گئی کہ اِن کی برآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کر دیا گیا تو نتیجتاً دالیں مہنگی ہو جائیں گی اور صرف درآمدشدہ دال ہی نہیں بلکہ زیادہ منافع کی لالچ میں تاجر ملکی پیداوار سے حاصل ہونے والی دالوں کی قیمتوں کو بھی بڑھا دیں گے جس کے نتیجے میں وہ صارفین زیادہ متاثر ہوں گے جن کا تعلق متوسط اور غریب طبقات سے ہے۔ پاکستان میں دال کی پیداوار میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کمی کی بنیادی وجہ ’کھاد کی کمی‘ اور ’پیداواری لاگت میں اضافے‘ کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ربیع کے موسم میں گندم کے ساتھ اِس کی کاشت کی جاتی ہے اور کاشتکاروں نے دال کے مقابلے چنے کی کاشت کو ترجیح دی اور کئی علاقوں میں چنے کو گندم پر بھی ترجیح دی گئی حالانکہ پاکستان کو گندم کی قلت کا سامنا ہے۔عالمی منڈی میں دیکھا جائے تو دالوں کی قیمتوں میں استحکام پایا جاتا ہے جبکہ گندم کی قیمت میں 75فیصد جیسا بلند اضافہ دیکھا گیا ہے اور اِس وجہ سے پاکستان کیلئے بہتر یہی ہے کہ پہلی ضرورت کے تحت گندم کی پیداوار میں خودکفالت حاصل کرے اور اِس کے بعد یا گندم کے ساتھ دالوں کی پیداوار کے بارے منصوبہ بندی کی جائے۔ اِس سلسلے میں حکومت کا کردار اور منصوبہ بندی انتہائی اہم و ضروری ہے جو مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے نئی فصل کی کاشت کے بارے عمومی شعور میں اضافہ کرے اور کاشتکاروں کے سامنے قومی غذائی خودکفالت کی صورتحال کی درست تصویر رکھی جائے۔ دوسری طرف اگر سٹیٹ بینک دالوں جیسی غذائی ضرورت کی درآمد میں رکاوٹیں بڑھاتا ہے تو یہ اپنی جگہ غلطی ہے کیونکہ سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے دوران ایسا کرنا عوام کے مسائل و مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ اگر قومی درآمدات کی شرح میں کمی لانی ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہو سکے تو اِس کیلئے سٹیٹ بینک کو دیگر ممکنہ راستے تلاش کرنے چاہئیں۔