خیبر پختونخوا فوڈ اینڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں میں روزانہ کی بنیاد پر غیر معیاری اور مضر صحت اشیائے خوردونوش بیچنے کی خبریں تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں۔ نقلی، غیر معیاری اور انسانی صحت کیلئے نقصان دہ اشیاء تیار اور فروخت کرنے والوں کا نیٹ ورک پورے صوبے میں پھیلاہوا ہے۔ دودھ میں پانی ملانے کی شکایت تو پرانی ہے اب پتہ چل رہا ہے کہ دودھ میں مضر صحت کیمیکل ملاکر فروخت کیاجارہا ہے جس سے عام صارفین کے علاوہ بچوں کی صحت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کبھی مردہ مرغیاں فروخت کرتے ہوئے لوگوں کو پکڑاجاتا ہے کہیں ہڈیوں کے گودے سے جعلی گھی تیار کرنے کے انکشافات ہورہے ہیں، کہیں چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملا کر فروخت کرنے کی خبریں آرہی ہیں تو کوئی مصالحہ جات میں اینٹیں پیس کر ملاتے اور چند ٹکوں کی خاطرانسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ گلی کوچوں میں مضر صحت اور غیر معیاری چپس، ٹافیاں، بسکٹ، پاپڑ اور آئس کریم کی فیکٹریاں کھل گئی ہیں۔ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ماہ صیام میں یہ غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء منہ مانگی قیمت پر بڑی کمپنیوں کے برانڈ نام کے ساتھ روزہ داروں کے ہاتھ فروخت کی جارہی ہیں۔ اس کاروبار سے منسلک لوگ عارضی مالی فائدے کی خاطر اپنی عاقبت ہی نہیں بلکہ لوگوں کی جانیں بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ آئے روز مختلف سرکاری اداروں کے چھاپوں کے دوران ایسی غیر معیاری اشیاء برآمد اور تلف کرنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں مگر اس غیر قانونی، اور غیر اخلاقی کاروبار کا خاتمہ ہونے کے بجائے اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
جعلی اور مضر صحت اشیائے خوردونوش کی تیاری اور فروخت کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں اور ان قوانین کے نفاذ کیلئے ادارے بھی ہیں لیکن معاشرے کے ان ناسوروں کا قلع قمع نہیں ہوپارہا۔سوشل میڈیا پر ایک دوست نے پوسٹ کی ہے کہ کارخانو مارکیٹ میں ایک غیر مسلم تاجر کی دکان پر رمضان کے آغاز سے ہی لوگوں کا رش لگا ہوا ہے کیونکہ غیر مسلم دکاندار نے رمضان کے احترام میں نہ صرف قیمتوں میں کمی کی ہے بلکہ وہاں دستیاب اشیاء کا معیار بھی بہت بہتر ہے اسی مارکیٹ میں مسلمان تاجر وہی مال دگنی قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، ناروے، ہالینڈ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں بھی سپر سٹورز پر رمضان کی آمد کے ساتھ حلال اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ماہ صیام کے احترام میں کمی کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں رمضان کے مہینے کو کمائی کا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔ملک کے مختلف شہروں میں گدھوں، کتوں کے گوشت فروخت کئے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں جو ایک اسلامی ملک کے باسیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر چیز کی نگرانی کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم بہ قائمی ہوش و حواس دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ لوگ دودھ، مصالحہ جات، چائے کی پتی اور دیگر اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کر رہے ہوتے ہیں مگر تعلقات خراب ہونے یا ڈر کی وجہ سے ہم خاموش تماشائی بن جاتے ہیں جو ظالم کے ساتھ معاونت کے مترادف ہے۔