اظہار رائے اور خطرناک آزادی

درس و تدریس کے ابتدائی اور ثانوی درجات میں بات چیت سے لیکر اظہار خیال پر مبنی سوچ کے مثبت پیرائے پر عبور کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ تعلیمی درجات کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اُس مقام تک جا پہنچتا ہے جہاں معلم (پروفیسر) خاموشی کے فوائد اور اِس کے اسرار بیان کرتے ہوئے خاموشی کو ’سونے (جیسی قیمتی دھات)‘ سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ بولنے کے عمل کو ’چاندی‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے! تو کیا واقعی ہمارا طالب علم ساری زندگی ’چاندی‘ اور ’سونے‘ میں تمیز کرتے اور اِن میں سے بہتر کے انتخاب کی جدوجہد میں کامیاب ہو پاتا ہے؟ یہ سوال پشاور کے ایوان ِصحافت (پریس کلب) میں ہم پیشہ ساتھیوں سے ہوئی ایک ملاقات کے دوران سامنے آیا جہاں سینئر صحافی فیض الرحمن صاحب ماضی و حال کے صحافتی اسلوب اور اُن چند واقعات و شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے‘ جو اُن کی یادوں کا سرمایہ ہیں۔ اِس موقع پر مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی (وفات 9 ستمبر 2021ء) کی صحافتی خدمات اور اُن اقدار کا بھی تذکرہ ہوا‘ جن کی پاسداری کرتے ہوئے اُنہوں نے روشن مثالیں یادگار چھوڑی ہیں۔ 
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی کو اِسلام آباد سے پشاور لانے والے ’جوہری‘ یہی فیض الرحمن صاحب تھے‘ جنہوں نے اُنہیں نہ صرف اپنے دفتر میں جگہ دی بلکہ اُن دنوں صحافت کیلئے درکار منجملہ وسائل بھی فراہم کئے۔ یہی وجہ تھی کہ فیض صاحب اور مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی کے درمیان گہرا تعلق اور مثالی دوستی آخری وقت تک قائم رہی۔ فیض صاحب کا تعلق صوابی جبکہ مرحوم یوسفزئی آبائی طور پر ایک کاٹلنگ (ضلع مردان) سے تھے‘ اُور اِس علاقے کو اُنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر پہچان دی۔سوشل میڈیا کے ظہور و پذیرائی پر ’ایوان ِصحافت‘ میں بہت کم تبادلہئ خیال ہوتا ہے جبکہ شعبہئ صحافت سے متعلق تکنیکی امور بارے غوروخوض پر مبنی ایسی نشستوں کا انعقاد باقاعدگی سے ہونا چاہئے‘ اِس سلسلے میں ہر مہینے کے پہلے ہفتے کا کوئی ایک دن مقرر کیا جا سکتا ہے۔ پریس کلب کی سطح پر اِس قسم کی نشستوں کا انعقاد کرانے کیلئے منتخب اراکین پر مبنی ایک خصوصی کمیٹی پہلے ہی سے موجود ہے‘ جسے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فعال کردار ادا کرنے کی جانب متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ کسی بات (خبر) کا بیان کرتے ہوئے صحافتی اسلوب ہو یا عمومی بول چال کی عادت ہر دو صورتوں میں قائم ہونے والی رابطہ کاری (کیمونیکیشن) اپنی ساخت و ذات میں سطحی اور فکری زاویئے رکھتی ہے۔
 اِسی سے معاشرے میں تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور اِسی سے معاشرے میں تعلقات تباہ بھی ہوتے ہیں یعنی ’رابطہ کاری‘ کسی معاشرے میں بیک وقت تعمیری و تخریبی کردار ادا کر رہی ہوتی ہے اور اِس میں بیک وقت منفی اور مثبت دونوں صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔   ”انتھونی اینڈ کلوپیٹرا“ نامی کھیل میں ولیم شیکسپیئر (وفات 1616ء) نے لکھا تھا کہ ”میں اِس معاملے (بات) کو (تو) زیادہ ناپسند نہیں کرتا لیکن اظہار خیال (اِس کے بیان کرنے کے انداز) کو ناپسند کرتا ہوں۔“ تو معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر صرف بات چیت کا تصور اور الفاظ کا چناؤ ہی نہیں بلکہ اِن الفاظ کی ادائیگی کا انداز بھی معنی رکھتا ہے اور یہ تصور ’ایوان ِصحافت‘ کے اُن سبھی ساتھیوں کے لئے بطور لقمہ پیش ہے جو تحریری صحافت کے علاوہ اپنے موبائل فون سے زیادہ بہتر استفادہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے حالات و واقعات کو محفوظ کر رہے ہیں۔ آج کی تاریخ میں اِس سے زیادہ بہتر کوئی دوسرا مواصلاتی پیرایہ نہیں ہوسکتا لیکن صحافت کرتے ہوئے اور صحافت نہ کرتے ہوئے بھی صحافیوں کی بول چال‘ رہن سہن‘ بودوباش اور سوچ پر سیاستدانوں کا اثر نہیں ہونا چاہئے جن کے اپنے سیاسی‘ انتخابی اور کاروباری مفادات ہوتے ہیں اور اِن تین سطحی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی صفوں میں وقتی اتحادواتفاق اور دائمی اِختلاف و اِنتشار پایا جاتا ہے۔ صحافیوں کو یہ بات کسی بھی صورت زیب نہیں دیتی کہ یہ بھی سیاسی‘ انتخابی و کاروباری مفادات جیسی تحاریک و مقاصد رکھیں۔ یہ بات اپنی جگہ ’لمحہئ فکریہ‘ ہے کہ آج کی صحافت سیاست اور سیاست صحافت کے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔
 زندگی کے جزیرے کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اِن دونوں طاقتوں کا اثر ہر شعبہئ زندگی پر دکھائی دیتا ہے اور اِسی کی  وجہ سے انسانی معاشرے کے درمیان تعلق سے تعلقات کی منازل طے ہوتی ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ صرف تحریر ہی نہیں بلکہ زبان و بیان میں بھی ایسا قابل قبول (محتاط) طرزعمل اختیار کرنا چاہئے جو رفتہ رفتہ مقبول ہوتا چلا جائے لیکن اِس کیلئے شعوری کوشش اور تربیتی نشستوں کے ذریعے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانوی سیاستدان اور وزیراعظم  سر ونسٹن چرچل نے ایک خاص طبقے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جب اُنہیں دعوت خطاب دی جاتی ہے تو وہ اپنی نشست سے اٹھنے سے پہلے تک نہیں جانتے کہ اُنہیں خطاب کے دوران کیا کہنا ہے۔ جب وہ خطاب کرنے لگتے ہیں تو اُنہیں علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا بول رہے ہیں اور جب وہ اپنا خطاب ختم کر کے واپس اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو تب بھی انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے کیا کچھ کہہ کر آئے ہیں۔“ ایسی تقریر‘ ایسے اظہار‘ ایسی تحریر‘ ایسی رابطہ کاری اور ایسی مواصلات درحقیقت ”آزادی کا خطرناک استعمال“ ہے اور یہی وجہ ہے کہ معروف کہاوت میں بولنے کو چاندی اور خاموشی کو سونا (زیادہ بہتر) قرار دیا جاتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم  کا قول ہے کہ ”یقینا خاموشی کبھی کبھار فصیح جواب ہوتی ہے۔“