پشاور مختلف مذاہب‘ مسالک اور سلسلہئ تصوف و عرفان کے گھرانوں پر مشتمل گلدستہ ہے جس کا ہر پھول اپنی جگہ منفرد خصوصیات رکھتا ہے۔ ایسا ہی ایک سرتاج علمی‘ ادبی‘ سیاسی‘ مذہبی‘ روحانی گھرانہ اور خانوادہ ”سلسلہئ عالیہ قادریہ حسنیہ“ سے تعلق رکھنے والے‘ پیرطریقت حضرت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ کا یوم وصال (تیرہ رمضان المبارک) کی مناسبت سے ’عرس مبارک‘ کی تقریبات کا آغاز رمضان ِکریم کے دوسرے عشرے کے آغاز سے ہوجاتا ہے اِن نورعلی نور محافل کاسلسلہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت (اکیس رمضان المبارک) جیسی عظیم الشان مناسبت سے متصل ہو جاتا ہے۔ مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش اُنیس سو بیس۔
وصال دوہزارچار) کا عرس اہل عقیدت سال میں دو مرتبہ خصوصیت سے مناتے ہیں گویا اُن سے ہر سانس کی نسبت و مناسبت رکھنے والوں روحانی فیوض و برکات سمیٹنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور یوں رمضان المبارک میں ”عرس خاص“ سن ہجری کے اعتبار سے انفرادی محافل کی صورت ہوتا ہے جبکہ ”عرس ِعام“ کا دراز سلسلہ سن عیسوی کے اعتبار سے ماہئ اکتوبر کی مناسب و موافق تاریخوں منایا جانا ایک روایت بن گئی ہے جسے آپ علیہ الرحمۃ کے جانشیں صاحبزادہ سیّد نورالحسنین گیلانی المعروف سلطان آغا (حفظہ اللہ) جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اور اِسی کے تحت اجتماعی یعنی نسبتاً زیادہ بڑے پیمانے پر مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ کی یادآوری اور ایصال ِثواب کیلئے بالترتیب قرآن خوانی‘ ختم غوثیہ‘ ذکر و اذکار‘ درود و سلام‘ حمد‘ نعت اور منقبت خوانی کی بابرکت محافل منعقد ہوتی ہیں جن میں ملک بھر سے بڑی تعداد میں اہل تصوف بالخصوص سلسلہ عالیہ قادریہ حسنیہ اور مولوی جیؒ سے منسوب طریقت کی شاخ ’سلسلہئ قادریہ حسنیہ امیریہ‘ کے مرید و طالب جوق در جوق شرکت کرتے ہیں۔
اِس موقع پر پشاور کے اندرون یکہ توت گیٹ اور بالخصوص ’کوچہ آقا پیر جان‘ میں واقع آستانے کی چہل پہل بڑھ جاتی ہے جہاں ایسے معمولات کسی ایک ماہ نہیں بلکہ پورا سال ہی خاص ایام پر منعقد ہوتے ہیں۔ اِن میں پیران ِپیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک جسے عرف عام میں بڑی گیارہویں شریف کہا جاتا ہے اور گزشتہ کئی سو برس سے عرس کی یہ تقریبات ’آستانہ عالیہ کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت شریف‘ میں باقاعدگی سے گیارہ ربیع الثانی کے روز منائی جاتی ہیں جبکہ ہر ماہ کی گیارہ (محرم کی دس اور ربیع الاؤل کی بارہ) تاریخ کو بھی ’چھوٹی گیارہویں شریف‘ کا اہتمام قرآن خوانی‘ درودوسلام‘ ختم غوثیہ اور ذکر و اذکار کے علاؤہ حمد نعت و منقبت کی مربوط محافل کی صورت باقاعدگی سے انعقاد کیا جاتا ہے۔ یوں اہل تصوف (راہئ سلوک و احسان) سے تعلق رکھنے والے اپنے روحانی سلسلے اور اہل علم و معرفت سے نسل در نسل کے تعلق کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جو درحقیقت و دراصل خانوادہئ اہل بیت اطہار سے مضبوط و غیرمشروط تعلق اور اِس تعلق کی مضبوطی کے لئے عہد و پیماں کی تجدید کا ذریعہ ہے‘مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ ’نفس مطمئنہ‘ تھے‘ جنہوں نے پشاور کے اذہان و قلوب میں اطمینان و یقین کے بیج بوئے۔
مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ رہنما تھے جنہوں نے پشاور کو دین و دنیا کی حقیقتوں سے آگاہ کیا۔ مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ چراغ ہدایت (سلسلہئ نور) تھے‘ جنہوں نے پشاور کو جہالت و گمراہی اور بدعقیدگی کی گھاٹی میں گرنے سے بچایا اور اپنی پوری زندگی سلسلہئ تصوف و عرفان کے اُس چراغ کو روشن رکھا جو اُن تک نسل در نسل بطور ذمہ داری منتقل ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ تصوف چونکہ ’ابدی سعادت‘ کے حصول کی خاطر تزکیہئ نفوس‘ تصفیہئ اخلاق اور ظاہر و باطن کی اصلاح جیسے اراکین کا مجموعہ ہے اِس لحاظ سے حق شناس معلم ’مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ‘ نے تصوف کے دونوں بنیادی پہلوؤں (نظری پہلو اور عملی پہلو) کی تعلیم و تربیت کا خاطرخواہ اہتمام رکھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ کی ذات بابرکات ہر مسلک و مذہب اور ہر مکتبہئ فکر کیلئے واجب الاحترام تھی۔ مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی تعلیم و تربیت اتباع شریعت(مجاہدہ)‘ مغفرت (محاضرہ) اُور فنا (مشاہدہ) کا مجموعہ رہی‘ جس کا حاصل ’توبہ (استغفار)‘ کے ذریعے رجوع الی اللہ ہے۔ آج بھی مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ کی یادیں اور اُن کے فیوض و برکات کا سلسلہ اُن خوش قسمت قلوب کو منور کر رہا ہے جو ریاضت و مجاہدہ کرتے ہیں۔ خود غرضی‘ لذتیت اور عیش کوشی سے الگ ہیں۔ جنہوں نے خود کو مادی لذتوں کی قیدوبند سے آزاد کر رکھا ہے۔