اب تو خیر زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے اور یار لوگوں کو روز مرّہ کے کاموں نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ مل بیٹھنے کا چلن ہی ختم ہو گیا ہے، مصروفیت کا عفریت کسی کو اپنے چنگل سے آزاد ہی نہیں ہونے دیتا، کب موسم بدلتا ہے کب ہوائیں چلتی ہیں اور کب شگفتن گل ہائے ناز کا وقت ہوتا ہے، کل امیر مینائی نے کہا تھا۔
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لئے
وہ زمانہ پھر بہتر تھا کیونکہ اب تو پھول آبادی میں بھی کھلتے ہیں مگر کسی کے پاس ان کو دیکھنے کا وقت نہیں رہا اس لئے بہاریں ہم سے روٹھ گئی ہیں، پھولوں کی پہچان ہم کھو بیٹھے ہیں،مصنوعی خوشبو سے ہم اپنے گھروں کو اور خود آپنے آپ کو بھگو کر خوش ہو جاتے ہیں، موسموں سے بھی ہمارا تعلق گرمی اور سردی کی حد تک رہ گیا ہے، کب چاند پورا ہوا کب آسمان تاروں سے بھر گیا کب درختوں پر کونپلیں پھوٹیں کب شگوفے کھلے کب کلیاں چٹکیں کب پھول بنیں ایک عرصہ ہوا میں نے تتلی نہیں دیکھی میں نے سر شام کوئی جگنو نہیں دیکھا اور تو اور اب بچپن کے زمانے بھی یاد کرنے پر،بمشکل یاد آتے ہیں جب دن تتلیوں کے پیچھے بھاگنے ا ور شامیں جگنو پکڑنے کی سعی میں ہم گزارا کرتے تھے، سر شام دریا کنارے یا پھر کھیتوں کھلیانوں میں ہم چند دوست گھومنے نکل جاتے اور اب ایک گلی میں رہنے والے وہ سارے دوست جانے کہاں کہاں اب سانس لے رہے ہیں،کسی سے رابطہ نہیں کسی کی کوئی خیر خبر نہیں آتی۔ زندگی کے میلے میں اتفاقا ًمل بھی جائیں تو کسی کے پاس وقت نہیں ہو تا کہ دو گھڑی کہیں بیٹھ کر تتلیوں اور جگنوؤں کے زمانے کو یاد کر لیں۔ کل مصطفی زیدی نے کہا تھا
تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے
سعی ئ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں
مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنوں سے ہی نہیں اپنے آپ سے بھی بچھڑ گئے ہیں اب تو آج کی مصروفیات نے دوستوں کے ساتھ تو ایک طرف اپنی صحبت میں بھی بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا، گردو پیش سے بھی ہماری آ گاہی میڈیا ہی کی حد ہی ہو تی ہے لگتا ہے کہ ہمارے حافظے میں مو جود کل کی بہت سی اچھی یادیں ہمیں اپنی طرف بلاتی ہیں مگر ان مصروفیات کا کیا جائے آج بیساکھ کا تیسرا دن ہے کم کم لوگوں کو علم ہو گا کہ بیساکھ کا مہینہ بکرمی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور تین دن پہلے ”سال کا پہلا دن تھا“ عیسوی تقویم ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے، اسلامی ہجری کیلنڈر میں سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام کا ہے جس کے اپنے معتبر حوالے اور آ داب ہیں،کہیں کہیں ایرانی سال کے حوالے سے ”نو روز“ بھی منایا جا تا ہے، مگر شمسی کیلنڈر کے قواعد سے بنا بکرمی کیلنڈر جو ستاون سال قبل مسیح سے بر صغیر میں رائج ہے سے یار لوگ واقف نہیں ہیں بلکہ اس کیلنڈر کا پہلا مہینہ بہت سے اخبارات اور ”جنتریوں“ (اب جنتری کا رواج بھی کم کم رہ گیا ہے اور یہ لفظ بہت ناموس اور اجنبی لگتا ہے) میں بھی ”چیت“ کو لکھا اور سمجھا جاتا ہے جو در اصل نانک شاہی تقویم کے مطابق پہلا مہینہ ہے، بیساکھ بدلتے موسموں کا ایک خوشگوار مہینہ ہے اس موسم میں فصلوں کی کٹائی کی وجہ سے کبھی بہت میلے لگتے تھے۔
جب سب لوگوں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے اناج تقسیم کرتے اور موسم کے گیت گایا کرتے اب یہ کام بھی مشینیں کرتی ہیں اور لوگوں نے اپنے لئے ایسی مصروفیات تلاش کر لی ہیں جو اجتماعی کی بجائے ذاتی اور انفرادی ہیں،یادش بخیر بچپن اور لڑکپن میں ہم دریا کنارے جا کر بیٹھ جاتے یا چند دوست مل کر گاؤں کے کھیت کھلیانوں کا رخ کیاکرتے تھے اب جانے وہ سب دوست کہاں ہیں کچھ خبر نہیں، اب شہروں کی طرح قصبات اور د یہاتوں کی گلیوں میں بھی صبح سویرے سبزی بیچنے والے ریڑھیوں پر تازہ سبزی لے کر آجاتے ہیں گویا بازار اور مارکیٹ جانے کی بھی حاجت نہیں رہی، ان دنوں ان سبزیوں میں تازہ ساگ نمایاں ہو تا، مجھے یاد ہے کہ اس موسم میں گاؤں میں اکثر خواتین ساگ چننے کے لئے ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے نکل جاتیں اور کوئی انہیں روکتا ٹوکتا نہ تھا، مجھے یادہے کہ ایک بار میں اپنی والدہ ماجدہ اور گھر کی دوسری خواتین کے ہمراہ ایک بابا کی زیارت پر گیا تھا۔
یہ زیارت گاؤں کے دوسرے سرے پر ریلوے لائن کے پار تھی جس کے لئے ایک طویل خشک برساتی نالہ سے گزرنا ہوتا تھا، ہم چلتے چلتے تھگ گئے تھے تو تھوڑی دیر کے لئے برساتی نالے کے اوپر بنی ہو ئی ریلوے پل کے نیچے سستانے کے لئے بیٹھ گئے، میں ذرا فاصلے پرپتھروں سے کھیلنے لگا بہت ہی خوشنما پتھر تھے کہ جی چاہتا تھا کہ جھولی بھر کے سارے پتھر گھر لے جاؤں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک زوردار گڑگڑاہٹ کی آواز آئی اور میری چیخ نکل گئی میرے ہاتھ سے سارے پتھر گر گئے ساری خواتین ڈر کے مارے زمین پر لیٹ گئی مگر میری ماں بھاگتے ہوئے میری طرف آئیں اور مجھے اپنی مہربان گود میں چھپا لیا ہم ریلوے پل کے نیچے تھے اور پل پر سے اچانک بھاپ کے انجن والی چیختی چنگھاڑتی ٹرین گزری میری حافظہ میں یہی ایک لمحہ محفوظ ہے تھا جب خوف سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی اس سے پہلے اپنی والدہ اور رشتے کی ایک ممانی سے رات کے وقت جنوں پریوں کی کہانیاں سنتے ہوئے میں اس لفظ سے آشنا تو تھا مگر یہ تجربہ بہت جان لیوا تھا ہر لمحہ یہی لگتا کہ ٹرین جیسے نیچے ہی تو آجائے گی۔
بعد میں بھی کتنے ہی عرصے تک ٹرین کی آواز سن کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی۔ اب سوچتا ہوں کہ بابا کی زیارت پر جانے کے لئے خواتین جان بوجھ کر چیت یا بیساکھ کی رت کا انتظار کیا کرتی تاکہ خوشبوؤں سے معطر ہواؤں میں چند لمحے کھل کر سانس لیں۔ تتلیوں کی ایک پھول سے اڑکر دوسرے پھول پر بیٹھنے اور ننھے کپکپاتے ہوئے پنکھ دیکھ کر خوش ہوں‘ ہم بچے بھی ساتھ ہوتے میں تتلی پکڑنے کی سعی کرتا کامیاب بھی ہوجاتا مگر پھر ماں یہ کہہ کر انہیں چھڑا دیتی کہ ”اللہ میاں ناراض ہو جائیں گے“ میں فوراً چھوڑ دیتا اور تتلی جاتے جاتے جانے اپنے رنگ میری انگلیوں پر چھوڑ جاتی میں حیران ہوکر سوچتا کہ ان نازک تتلیوں کے رنگ اتنے کچے کیوں ہوتے ہیں۔مگر اب تو بچے جگنو کودن کے وقت پرکھنے کی حالت سے بھی آگے بڑھ گئے اب تو محض کتابوں میں ہی یہ جگنو تتلی پڑھنے کو انہیں ملتے ہیں آج کے بچوں کے بارے میں اسی بیساکھ کے موسم میں بچھڑنے والے فارغ بخاری نے ٹھیک کہا ہے۔
وقت سے پہلے بچوں نے چہرے پہ بڑھاپا اوڑھ لیا.... تتلی بن کر اڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں...