پاکستان میں جمہوری نظام بتدریج زوال پذیری کی طرف گامزن دکھائی دیتاہے سیاسی قیادت ابھی تک کارکنوں کی بنیاد ی تربیت تک نہیں کرسکی ہے جس کی وجہ سے سیا سی مخالفت اب سیاسی مخاصمت یعنی دشمنی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے‘سیاسی اورجمہوری اخلاقیات کو تو کب کادفن کیاجاچکاہے اب آپ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کو ہی دیکھ لیں کس طرح پاکستان تحریک انصاف اور اس کی مخالف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بدترین حتیٰ کہ غداری تک کے الزامات عائد کرنے میں مصروف ہیں کسی بھی سیاسی معاشرہ میں سب سے سنگین ترین الزام غداری کاہواکرتاہے جو بہت کچھ سوچنے سمجھنے اور بہت سے حقائق سامنے آنے کے بعدلگایا جاتاہے مگر ہمارے ہاں تو روز اول سے سیاسی مخالف کو پہلے ہی ہلے میں غدار قراردینے کی روش اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اب تو لفظ غداربھی سیاسی ڈکشنری کااہم جزو بن کررہ گیاہے اور عام لوگ اب غداری کے الزامات پرزیادہ کان بھی نہیں دھرتے یہی روش ملک میں جمہوریت کے زوال پذیری کی اہم وجہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل مختلف ممالک میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والی بین الاقوامی تحقیقاتی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے نظام حکومت کو ”ہائبرڈ‘‘(مرکب) قرار دیا ”ڈیموکریسی انڈیکس 2020‘‘نامی رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 165 آزاد ممالک اور دو خود مختار خطوں میں رائج جمہوریت کا جائزہ لیا گیا بین الاقوامی جریدے ”دی اکانومسٹ‘‘کے انٹیلیجنس یونٹ ’ای آئی یو‘ کی جمہوریت کے حوالے سے جاری کردہ اس فہرست میں پاکستان 167 میں سے 105ویں نمبر پر ہے اور 2020 ء میں ملک کا مجموعی سکور 4.31 ریکارڈ کیا گیا ’دی اکانومسٹ‘ کے تحقیقی ادارے ’انٹیلی جنس یونٹ‘ کے نئے ’جمہوریت انڈیکس‘ کے مطابق دنیا بھر میں جمہوریت زوال کی جانب گامزن دیکھی گئی۔انڈیکس میں عالمی سطح پر حکومتوں کو چار حصوں، مکمل جمہوریت، تقریباًجمہوریت، نیم جمہوریت اور مطلق العنانیت، میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جمہوریت کی صورت حال پرکھنے کے لئے چھ اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا جن میں انتخابی عمل، حکومتی عمل داری، سیاسی میں شرکت، سیاسی کلچر اور شہری آزادی شامل ہیں۔عالمی انڈیکس کے مطابق دنیا بھر کے صرف انیس ممالک ایسے ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے اور ان ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا محض ساڑھے چار فیصد بنتی ہے۔
اب اس میں ہمیں اپنی جگہ بنانے میں کئی عشرے درکار ہیں کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت تیزی سے روبہ زوال دکھائی دیتی ہے ہم جمہوریت کو بہت سطحی انداز میں لیتے ہیں اور اس میں حکومتوں کی کارکردگی ناپنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اسی لئے توہماری کارکردگی کے بجائے محض زندہ ہے مردہ ہے جیسے نعروں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیاجاتاہے او ر انہی نعروں کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں ہمارے ہاں اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری حکومت کس کو کہتے ہیں؟ اکثر اوقات جمہوریت ایک لازمی عنصر تک محدود ہوجاتی ہے۔ وہ ہے انتخابی عمل (الیکشن)۔ اس کا معنی ہے آزاد، منصفانہ اور صاف ستھرے الیکشن کے ذریعہ حکومت بشمول وزارتوں کے سربراہان کا انتخاب کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انتخابی عمل میں سماج کے تمام طبقات اور افراد کی شرکت رہے کیا اس کسوٹی پر ہمارا ملک بہتر طریقے سے پورا اْترتا ہے اس سوال کاجواب بہت آسان مگر بہت پیچید ہ بھی ہے بیشتر دْنیا بھی جمہوریت کو اسی طرح پرکھتی ہے۔
شہریوں کے حقوق اور اْنہیں ملنے والی آزادی کو اولیت دی جاتی ہے اور پانچ سال میں ایک بار ہونے والے (انتخابی) عمل کو قانونی حیثیت۔ انتخابی عمل، شہری حقوق اور آزادی کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا پہلو بھی جمہوریت سے وابستہ ہے جس کی طرف بالائی سطور میں اشارہ نہیں کیا جاسکا۔ یہ پہلو ہے عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی حکومت کی کارکردگی۔ اس کے افعال۔ عوام کا روزمرہ کا تعلق سیاستدانوں سے نہیں ہوتا جنہیں وہ منتخب کرتے ہیں بلکہ روزمرہ کا عملی تعلق اْن سرکاری افسران، ملازمین اور کارکنا ن سے ہوتا ہے یعنی بیوروکریٹس ان میں آپ ججوں کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ عوام کا انہی سے زیادہ تعلق رہتا ہے اور عملی طور پر یہی لوگ اْن کے حتمی نمائندے ہیں جو جمہوریت کو زمین پر اْتارتے اور روزمرہ کی زندگی میں یقینی بناتے ہیں۔ اتفاق سے ان کی کارکردگی کو جانچنے کا کوئی پیمانہ یا کسوٹی ہمارے پاس نہیں ہے۔ مگر ان کی کارکردگی اور خدمات کو جانچنے کا کوئی آلہ، کوئی کسوٹی اور جدول بنایا گیا تو بڑی مایوسی ہاتھ لگے گی۔ ایسا کہنے کی پہلی وجہ تو وہ ہے جس کا تجربہ اور مشاہدہ ہم میں سے کم و بیش ہر ایک کو ہے۔
وہ بدعنوانی اور غفلت و تساہلی ہے جس کے مظاہر آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس کے علاوہ جو مسئلہ ہے وہ بیوروکریسی یعنی افسر شاہی یا نوکر شاہی کو اپنے احکام کا پابند بنائے رکھنے کی اہل اقتدار کی صلاحیت ہے۔ سیاستدان پولیس اور ایجنسیوں کو اپنے مخالفین کے خلاف مامور کردیتے ہیں جس کے خلاف اندر سے یعنی افسر شاہی کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی افسران کو جن اخلاقیات کا پابند ہونا چاہئے وہ خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس سے ہمارے سماج کی اندرونی افسوسناک کیفیت کااندازہ ہوتا ہے۔ جب جمہوریت عا م لوگوں کے مسائل کے حل میں ناکام ہوجائے اور اس کاکردار اشرافیہ تک محد ودہوجائے تو پھر لوگوں کا سسٹم پر سے اعتماداٹھنا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہوا کرتی ہمارے ہاں جمہوریت ان مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں یرغمال بنی ہوئی ہے جن کو آج کل الیکٹبلز کہاجاتاہے یہ لوگ ہر د ور میں حکومتوں کاحصہ بنتے ہیں اور ان کوپتہ ہوتاہے کہ بیوروکریسی کو کیسے چلایا جاتاہے یوں ثمرات چند لوگوں تک محدود رہنے سے ہماری جمہوریت پرسوالیہ نشان مستحکم ہوتاجارہاہے اسی لیے تو ملک میں کچھ عرصہ سے صدارتی نظام حکومت پربحث ہورہی ہے سیاسی جماعتوں کا فرض بنتاہے کہ وہ ان حالات میں رولز آف گیم تشکیل دے کر جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے بنیادی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تصادم اورسیاسی مخاصمت کی فضاسے بچنے کے لیے کارکنوں کی تربیت پر بھی توجہ مرکوز کریں بصورت دیگربہت کچھ ہاتھوں سے جاسکتاہے۔