کسی بھی زاویئے سے دیکھا جائے اور کسی بھی معاشی اصول کے مطابق تعریف و تشریح کی جائے‘ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ”سنگین“ دکھائی دے گی۔ ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت کو بھی مہنگائی‘ قرضے‘ کم قومی پیداوار‘ غیرملکی کرنسی کا کم ذخیرہ اور جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ ورثے میں ملے ہیں لیکن اِن سبھی معاشی خرابیوں کی ایک وجہ ”غیرمستحکم سیاسی ماحول‘‘بھی ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ حیران کن مؤقف سامنے آیا ہے کہ ”تحریک انصاف جب سال دوہزاراٹھارہ میں برسراقتدار آئی تو اِس کے پاس کوئی معاشی بہتری کے لئے حکمت عملی موجود نہیں تھی تاہم تحریک نے ورثے میں ملنے والی معیشت کو زیادہ بہتر حالت میں چھوڑا ہے۔“ یہ طرزعمل بھی تبدیل ہونا چاہئے کہ ہر دور حکومت میں ماضی کی حکمرانوں کو معاشی بحران کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے خراب معاشی کارکردگی کو زیادہ بڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ کاروباری طبقات جو پہلے ہی پریشان ہیں وہ زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں اور سرمایہ کار اپنے ارادے تبدیل کر لیتے ہیں کیونکہ ہر کسی کو اندھیرا ہی اندھیرا دکھایا جاتا ہے جس میں اُمید کی کرن نہیں ہوتی جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُمید کی کرن کو سورج بنا کر پیش کیا جائے اور عوام کے سامنے ایک ایسی معاشی تصویر رکھی جائے جس کا ہر رنگ دوسرے سے زیادہ گہرا ہو۔
پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ بڑھ رہا ہے یعنی ہماری برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں لیکن موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ خسارہ زیادہ سے زیادہ بھی ہوا تو بیس ارب ڈالر سے نہیں بڑھے گا اور یہ ملک کی کل خام پیداوار (جی ڈی پی) کے چھ فیصد کو عبور کر سکتا ہے لیکن یہاں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لینا چاہئے اور حقیقت اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں تاہم جیسا کہ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی سال کے لئے پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ قومی معیشت شدید دباؤ کے دور سے گزر رہی ہے جس کی شدت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ (ایمنسٹی) دی تھی‘ جسے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے غیرضروری قرار دیا تھا لیکن ’آئی ایم ایف‘ کے اِس اعتراض کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی اور ٹیکس معافی (ایمنسٹی) کو برقرار رکھا گیا۔ علاؤہ ازیں ایک ارب ڈالر قرض کی قسط ادا کرنے میں تاخیر ہوئی اور اِن دونوں محرکات کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر دباؤ بڑھا۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین سے ڈھائی ارب ڈالر کا قرض لے رکھا ہے‘ جس کی واپسی کا اگرچہ تقاضا نہیں کیا جا رہا لیکن قرض بہرحال قرض ہی ہوتا ہے اور اِس کی واپسی کرنا ہی پڑتی ہے۔ ممکن ہے کہ ”آئی ایم ایف“ سے قرض کی نئی قسط ملنے پر چین اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نئے حکمرانوں کے پاس معیشت کی پائیدار بحالی کے لئے لائحہ عمل موجود ہے؟ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کے لئے دو بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی؟ معاشی مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اُن طبقات سے ٹیکس وصول کیا جائے جو ٹیکس چوری کو جائز سمجھتے ہیں اور ہر چند سال بعد ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اُٹھانے کا انتظار کرتے ہیں۔پاکستان کی معاشی زبوں حالی کی دوسری وجہ سرکاری اداروں کا خسارہ ہے جیسا کہ سٹیل ملز اور پی آئی اے قومی خزانے پر مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ایسے قومی اداروں کی جزوی یا کلی نجکاری کے ذریعے بھی مالی وسائل کی بچت ممکن ہے اور معاشی بحران کا تیسرا محرک حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق ہے جسے کم کرنے کی اشد ضرورت ہے حکومت سادگی اختیار کرنے کی مہم کا فوری اعلان کرے اور ”معاشی ایمرجنسی‘‘کا اعلان کیاجائے۔ مزید برآں برآمدات کے فروغ اور درآمدات کے لئے ادائیگیوں کا بندوبست پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافے سے باآسانی ممکن ہے اور اِس مقصد سے اُن غیرروایتی شعبوں کو ترقی و توجہ دینے کی ضرورت ہے پاکستان کو بہتر اور کم خرچ طرزحکمرانی کے ساتھ پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔