شہبازشریف حکومت کے چیلنجز

پاکستان کی نئی حکومت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج22کروڑ عوام کو فوری ریلیف کی فراہمی روپے کی قدر میں اضافہ‘ ڈالر کی  قیمت میں کمی‘ اشیائے خوردونوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں فوری کمی اور معاشرے میں  عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے کلچر کا خاتمہ ہے اگرچہ شہبازشریف اور انکے اتحادیوں کیلئے حکومت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ عمران خان اور انکی تحریک انصاف نے کسی بھی صورت اس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا ہے اور وزیراعظم کے انتخاب سے قبل ہی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ بھی نہیں لیا۔اسمبلی کے اندر تو نئی حکومت کو کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں مگر اتوار کی شام ملک بھر میں عوام کی بڑی تعداد کو سڑکوں پر نکال کر تحریک انصاف نے اپنی سٹریٹ پاور ایک بار پھر ثابت کردی ہے ایسی صورت میں نئی حکومت کی کامیابی اور عوام میں مقبولیت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکمران عوام کو حقیقت میں ریلیف فراہم کریں آٹا‘ چینی‘ گھی‘ دالوں‘ سبزیوں پھلوں کے علاوہ ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ذمہ دار افراد اور مافیاز کے خلاف آپریشن شروع کریں رمضان اور عید کے علاوہ عام دنوں میں جن تاجروں کارخانہ داروں اور دکانداروں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے انکے خلاف موثر کاروائیاں اور اسکے نتیجے میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی عوام کی بڑی تعداد مطمئن کرسکتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے

کہ دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان برپا ہے روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور مزید اضافہ متوقع ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تین بڑی جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی حکومت جس میں کئی دیگر چھوٹی  جماعتیں بھی شامل ہیں اسکے معاشی ماہرین اور تجربہ کار وزراء اور معاونین ڈالر کی قدر کم کرنے‘ مقامی معیشت کو مستحکم کرنے اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہوتی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو اس نئی حکومت میں شامل تمام رہنماؤں اور جماعتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عوام صرف خالی باتوں اور نعروں سے  بہلنے والے نہیں عوام چاہتے ہیں کہ ان کو روزگار فراہم ہو ان کی زندگی آسان ہو‘ بجلی اور گیس کی نہ صرف مسلسل فراہمی ہو بلکہ اس کی قیمتوں میں ہونیوالے ہوشربا اضافے کو بھی کم کیا جائے۔ نئی حکومت کے پاس وقت بھی کم ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت اگلے سال وسط تک عوام اور ملک کے مفاد کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے۔

ان کیلئے میدان صاف ہے عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے کچھ کیا تو2023ء میں قوم انکے ساتھ ہوگی وگرنہ2023ء کے انتخابات میں پھر کسی اور کے پاس جانے کا سوچے گی۔ دوسری طرف سیاست میں عدم برداشت کے رجحان کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔ہر سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا ٹیمیں بنا رکھی ہیں،  عدم برداشت کا کلچر سوشل میڈیا ٹیموں سے پارٹی کارکنان اور پھر عوام میں بھی پھیل رہا ہے ضروری ہے کہ تمام جماعتوں کے قائدین اس حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیموں کی پالیسی تبدیل کریں عام کارکن کو بھی اس بات کی تلقین کریں کہ کسی کی عزت نہ اُچھالی جائے۔ہر کسی کو اپنی جماعت اوراسکے قائدین کی محبت اور انکے حق میں دلائل کا حق ہے ساتھ ہی مخالفین کی غلط پالیسیوں کو بھی منظر عام پر لایا جاسکتا ہے مگر جو کسی اور کی بے عزتی کر سکتا ہے کوئی اور اس کی بھی اسی طرح عزت اچھال سکتا ہے اسلئے ضروری ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں۔