پشاور کہانی: لمحہئ موجود‘ لمحہئ فکریہ


شبیرامام
”اَحیائے پشاور (پشاور ریوائیول پلان)“ کے سلسلے میں جاری کوششیں تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہیں اور چار سال بعد بھی پشاور کے  بعض حصوں کو تجاوزات سے پاک کرنے جیسا ہدف حاصل نہیں ہو سکا  جبکہ اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے ایسی ہی ایک نشست‘ تیرہ اپریل کے روز‘ کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیرصدارت ہوئی جسے اعلامیے میں ”اہم اجلاس“ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ  کمشنر پشاورنے جی ٹی روڈ‘ رنگ روڈ‘ یونیورسٹی روڈ‘ چارسدہ روڈ‘ کوہاٹ روڈ‘ ورسک روڈ‘ سٹی سرکلر روڈ دیگر اہم شاہراؤں‘ اندرون شہر اور پشاور صدر کے بازاروں میں تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن (کاروائی) کے احکامات جاری کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو آئندہ 10 دن (23 اپریل تک) ”ایکشن پلان (لائحہ عمل)“ تیار کرنے کی ہدایت جاری کی ہے اس کے علاوہ شہر کی دیواروں پر لکھائی اور پوسٹر لگانے والوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کے احکامات جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیواروں پر پوسٹر چسپاں کرنے اور لکھائی (وال چاکنگ) کرنے والوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی صورت متعلقہ ’ٹی ایم او‘ کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔“ یادش بخیر اگست 2021ء کے غالباً تیسرے ہفتے میں اِسی قسم کی ایک اعلیٰ سطحی نشست  ہوئی تھی جس میں پشاور سے انسداد تجاوزات کیلئے اِسی قسم کی ’فیصلہ کن اور بلاامتیاز و دباؤ کاروائی‘ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔”احیائے پشاور“ کیلئے صوبائی حکومت نے مختلف شعبہ جات کے من پسند ماہرین پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیں‘ جن کے نام اور اِن کمیٹیوں کی کارکردگی سے متعلق معلومات ”سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی ویب سائٹ (cdgpeshawar.gov.pk)“ پر ایک عرصے تک موجود رہنے کے بعد‘ نہایت ہی خاموشی سے ہٹا دی گئی ہی اور اب اگر اہل پشاور اندرون یا بیرون ملک سے ”اپنے پشاور“ کی تعمیروترقی اور خوبصورتی کی بحالی سے متعلق حکومت یا حکومتی اداروں کی کارکردگی کے بارے میں جاننا چاہیں تو ایسی تمام متعلقہ معلومات دستیاب نہیں رہی! اصولاً پشاور سے متعلق ہر قسم کی معلومات ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) کی مذکورہ ویب سائٹ سے ملنی چاہئے اور پشاور سے محبت رکھنے والے افراد اور غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کیلئے تجویز ہے کہ وہ  ”احوال ِپشاور“ کے عنوان سے ’ویب سائٹ‘ تشکیل دیں‘ جہاں صرف اور صرف پشاور کی نمائندگی دکھائی دے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت اپنی ویب سائٹ پر پشاور کے موجودہ مسائل اور اِس کے بارے میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خبریں‘ تبصرے‘ تصاویر‘ مضامین‘ دستاویزی مواد اور بالخصوص سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیوز (vlogs) کا یومیہ مجموعہ جاری کرے‘ بھلے ہی یہ مجموعہ دن میں ایک مرتبہ جاری کیا جائے لیکن یہ عمل باقاعدگی سے منظم انداز سے بہ لحاظ ترتیب ہونا چاہئے کہ پشاور کے کسی بھی حصے سے اگر کوئی عوامی شکایت یا بے قاعدگی ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظرعام پر آتی ہے تو ایسی آوازیں وقت کے ساتھ گم نہ ہوں بلکہ محفوظ رہیں اور اگر یہ ترتیب و ترکیب کر لی گئی تو پھر کسی کوپشاور کے برسرزمین حالات جاننے کیلئے ادارہ جاتی رپورٹ طلب کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ ”لمحہئ موجود درحقیقت لمحہئ فکریہ“ ہے کہ کوئی ہے جو پشاور سے محبت کا عملاً  اظہار کچھ اِس طرح خوبی سے کرے کہ اُس کا تذکرہ جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین‘ زندہ تاریخی شہر یعنی پشاور کی تاریخ و ثقافت کے ساتھ محفوظ ہو جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی کارنامے اور ٹھوس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا جس میں بھی ایسا کوئی کارنامہ کسی بھی حوالے سے انجام دیا ہے تو وہ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ یہ ”لمحہئ موجود درحقیقت لمحہئ فکریہ“ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پشاور کی سیادت و قیادت اور اِس کی نمائندگی و فیصلہ سازی پر فخر کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن جملہ فیصلہ سازوں اور نمائندوں کو سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اپنے عہدوں سے جڑی ذمہ داریوں (فرائض ِمنصبی) کی ادائیگی میں کم سے کم اُس مقام پر فائز ہیں جہاں یہ پشاور کیلئے قابل فخر‘ قابل تقلید اور قابل ذکر قرار پائیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے کوششیں ہر دور میں ہو رہی ہے تاہم ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اوراس کا حق ادا کرنا وہ مثال ہے جسے قائم کرنا ازحد ضروری ہے اور یہی وہ پیمانہ ہے جس سے محسن پشاور کا انتخاب ممکن ہے۔