پاکستان کی ضرورت غذائی خودکفالت کی ہے جس کیلئے زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافے کی صورت کئی ایسے مواقع موجود ہیں‘ جن سے تجارت (برآمدات) میں اضافہ بھی ممکن ہے لیکن بنیادی سوال زراعت کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے سے متعلق ہے کہ ایک تو ہمارے چھوٹے بڑے پیمانے پر کاشتکار حضرات کی رہنمائی اور تعلیم کا خاطرخواہ بڑا انتظام موجود نہیں اور دوسرا ’ٹیکنالوجی پر منحصر زراعت‘ کیلئے مقامی طور پر تکنیکی و مالی وسائل کم ہیں جبکہ پاکستان جن دوست ممالک سے تکنیکی امداد حاصل کرتا ہے اُس میں بھی زراعت کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس سلسلے میں پہلی ضرورت قومی سطح پر ’ہنگامی حالت‘ کا نفاذ کر کے تمام تر توجہ اور وسائل زرعی شعبے کی ترقی و توسیع کیلئے مختص کرنے چاہیئں‘ جن میں ’مال مویشی (لائیوسٹاک)‘ مرغ بانی‘ مچھلی بانی اور شہد کی مکھیوں کی افزائش شامل ہے۔
ذہن نشین رہے کہ جب ہم زرعی پیداوار اور زرعی ترقی کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس سے مراد نہ صرف فصلیں بلکہ پھل پھول بھی ہوتے ہیں اور جغرافیائی طور پر پاکستان میں بیک وقت کئی موسموں پائے جاتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ایک ہی وقت میں مختلف قسم کی سبزی پھل اور دیگر پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اِس پیداوار سے مصنوعات (ویلیو ایڈیشن) کرنے کے انتظامات بھی ہونے چاہیئں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جس میں متنوع زرعی منظر نامے اور چار موسموں کی وسیع جغرافیائی شکل موجود ہے۔
اس کے باوجود خوردنی اجناس درآمد کی جاتی ہیں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر بڑی مشکل ہے کہ صرف رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران پاکستان نے قریب ساڑھے 6.4 ارب ڈالر مالیت کی غذائی اجناس درآمد کیں اور اگر بغور دیکھا جائے تو یہی قریب ساڑھے چھ ارب ڈالر مقامی طور پر زراعت کو توسیع و ترقی دے کر نہ صرف بچائے جا سکتے ہیں بلکہ زرعی ترقی کا مطلب روزگار میں اضافہ ہوتا ہے۔
زرعی معیشت و معاشرت کو قرض کے اِس چنگل سے نکالنے کا واحد طریقہ ’تعلیم‘ ہے یعنی کسانوں کو کاشت کاری کی مہارت حاصل ہو‘ وہ کم رقبے پر کاشت سے زیادہ پیداوار حاصل کریں اور اجناس سے متعلق اُن کے اندر صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت پائی جائے۔ اِن اہداف کا حصول کسانوں کے اتحاد و اتفاق میں بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ جائیں اور ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ ہوں جیسا اُن کی محنت و مشقت سے فائدہ اُٹھانے والے متحد و منظم ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ جو محنت و مشقت کرتا ہے وہ مقروض و محکوم ہے اور جو اُس کی محنت کا پھل فروخت کرتا ہے وہ خوشحال و سرمایہ دار اور حاکم بنا ہوا ہے! ہمارے کسان مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔ طویل مدتی اہداف کی واضح شناخت اور مارکیٹنگ و مالیات سے متعلق طریقوں سے آگاہی نہیں رکھتے اور اگر اُنہیں اِن شعبوں کی خاطرخواہ معلومات فراہم کر دی جائے تو کھیتی باڑی کو لاحق خطرات بڑی حد تک کم یا ختم ہو سکتے ہیں اور کسانوں کو اچھی طرح تناسب والی کیڑے مار ادویات‘ متوازن کھادوں اور زمین کی صحیح تیاری سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنا سکتی ہے۔ زراعت کی تعلیم اطلاقی سائنس اور کاروباری انتظام کو یکجا کرتی ہے۔ ایک وسیع البنیاد تاثیر و نتیجہ حاصل کرنے کیلئے ”اہم زرعی معلومات“ پھیلانا ضروری ہے۔ سماجی و اقتصادی ترقی کے اہم محرک کی حیثیت سے زراعت سماجی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے اور معاشی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔