چھٹی کرنے کا اخلاقی جواز

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اسمبلی میں اپنے اولین خطاب میں کہا تھا کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے فلسفے پر کاربند رہتے ہوئے کام، کام اور صرف کام کرنے پر توجہ دیں گے۔ ہماری معیشت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ہفتے میں دو دو چھٹیاں کریں۔ اس لئے ہفتے کے دن کی چھٹی فوری طور پر ختم کی جاتی ہے۔ انہوں نے دفتری اوقات بھی صبح آٹھ بجے سے سہ پہر تین بجے مقرر کردیا اور خود بھی صبح پونے آٹھ بجے دفتر پہنچ گئے۔ میاں شہباز شریف دل کے مریض ہونے کے باوجود انتہائی چاق و چوبند اور چوکس رہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ سرکاری ملازمین بھی ان کی طرح وقت کے پابند اور متحرک نظر آئیں۔لیکن ہماری قوم کافی سہل پسند اور کاہل ثابت ہوئی ہے۔ دفتری اوقات کار بیشک آٹھ بجے مقرر کریں مگر افسران دس بجے سے پہلے بستر سے ہی نہیں اٹھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چوکیدار، جونیئرکلرک اور سٹینوگرافر کے ساتھ افسر بھی مقرر وقت پر دفتر پہنچ جائے تو اس افسری کا کیا فائدہ؟اور پھر افسر کی ذمہ داری ٹیبل پر بیٹھ کر کلرکوں کی طرح کام کرنا تھوڑی ہوتا ہے وہ دفتر پہنچ کر پہلے قہوہ، چائے یا کافی نوش فرمائے گا۔
 پھر سپرنٹنڈنٹ کو بلاکر ملاقاتیوں کی تفصیلات معلوم کرے گا۔میٹنگ بلائے گا۔اس دوران ملاقاتی آئیں گے تو انہیں دوچار گھنٹے انتظار کروائے گا۔ تاکہ انہیں بھی احساس ہوجائے کہ وہ کسی افسر سے ملنے گئے تھے۔اب یہ بات بھی نہیں کہ تمام سرکاری افسر وں کا مزاج ایسا ہی ہے، اعلیٰ منصب پر فائز عاجزانہ مزاج رکھنے والے بھی بہت ہیں، وقت کی خود بھی پابندی کرنے اور دوسروں سے کرانے والے افسران کی بھی موجود ہیں،بہرحال وزیراعظم کو اپنے احکامات پر نظر ثانی پر مجبور کردیاگیا ہے بینک ملازمین کی تنظیم نے وزیر اعظم کی جانب سے بینکوں کے اوقات کار بڑھانے اور ہفتہ کی چھٹی کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف پشاور میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا‘ ملک کے کئی شہروں میں سروے کے دوران مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا کہنا تھا کہ دفاتر کے اوقات بڑھانے اور چھٹی ختم کرنے سے ملازمین ہی نہیں ان کے خاندان بھی متاثر ہوں گے۔ اور ان کی سماجی زندگی بھی ختم ہوجائے گی۔
 ظاہر ہے انسان کو معاشرے میں رہنا ہے تو کسی کی شادی بیاہ، غمی خوشی بھی شرکت کرنی ہوتی ہے دوستوں اور بچوں کو لے کر سیر وتفریح کیلئے بھی نکلنا ہوتا ہے جنازوں اور باراتوں میں بھی شرکت کرنی ہوتی ہے۔ اور مسلسل کام کرنے سے ملازمین کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں انہوں نے چھٹی کرنے کے فوائد گنواتے ہوئے کہا کہ دفاتر کھلنے سے گرمیوں میں بجلی کا خرچ بھی بڑھے گا۔جس سے ملک کامعاشی نقصان بھی ہوگا۔صحت خراب ہونے کی صورت میں ملازمین کے علاج معالجے کا قومی خزانے پر اضافی بوجھ پڑسکتا ہے۔دیر تک دفتر میں ائرکنڈیشنر کے سامنے بیٹھنے کے بھی صحت پر برے اثرات پڑسکتے ہیں جس سے کام کا معیار بھی متاثر ہوسکتا ہے ملازمین کی طرف سے اٹھائے گئے ان قانونی، اخلاقی اور ادارہ جاتی نکات کا حکمرانوں کو بھی قائل ہونا پڑا۔تاہم سرکاری ملازمین نے قوم کے وسیع تر مفاد میں رمضان کے دوران نئے دفتری اوقات کار پر عمل کرنے اور عید تک صرف ایک ہفتہ وار چھٹی کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ جو ملک و قوم کیلئے بلاشبہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔