شاہد علی پٹواری سے دوست محمد مزاری تک 

ہفتہ کے روز پنجاب اسمبلی میں جوکچھ ہوا اس نے پارلیمانی تاریخ کاشرمناک باب رقم کیا اس معاملہ میں دونوں فریقوں نے اپنا اپناکردار بھرپور طریقے سے اداکیا نئے قائد ایوان کے الیکشن کیلئے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری پرحملہ کرکے ان پر تشدد کیاگیا اراکین ایک دوسرے کے ساتھ بھی مشت گریباں رہے حتیٰ کہ سپیکر اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی پربھی حملہ کیاگیا صورت حال اس حد تک بگڑگئی کہ ایوان میں پولیس کمانڈوز داخل ہوئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے بعض اراکین اسمبلی کو گرفتار کرلیا پی ٹی آئی اراکین منحرفین کے خلاف احتجاج کررہے تھے اسی صورت حال پر اپنے جلسہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے افسوس کرتے ہوئے کہاکہ اگر عدالتیں منحرفین کے حوالہ سے کیس پربروقت فیصلہ دے دیتیں تو کبھی اس قسم کے واقعات پیش نہ آتے وطن عزیز میں پہلا مارشل لاء بھی کم وبیش اسی طرح کے حالات کے باعث لگایاگیا تھا ان دنوں مشرقی پاکستان میں سیاسی عد م استحکام پورے عروج پر تھا مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا جہاں پر عوامی لیگ اور اتحادی جماعتوں کی حکومت تھی 23ستمبر 1958کو مشرقی پاکستان اسمبلی میں جو افسوسناک واقعات رونما ہوئے ان میں اور پنجاب اسمبلی کے واقعات میں بہت زیادہ مماثلت سے یقینی طور پرجمہوریت پسند حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
 23ستمبر 1958کو جب مشرقی پاکستان اسمبلی کااجلاس شروع ہوا تو چھ اراکین کی معطلی کے معاملہ پر بدترین ہنگامہ آرائی شروع ہوئی معاملات سپیکر کے کنٹرول سے نکلنے لگے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایوان میں پولیس کو بلانا پڑا تاکہ صورتحال کو کنٹرول کیاجاسکے مگر پولیس بھی ناکام رہی اس دوران سپیکر ایوان سے نکل گئے شاہد علی پٹواری ان دنوں صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے انہوں نے کاروائی چلانی چاہی مگر انہیں سپیکر کی کرسی پر بیٹھنے نہیں دیاگیا جس کے بعد انہوں نے ایوان میں بیٹھ کرہی کاروائی چلانے کی کوشش کی مگر ہنگامہ آرائی قابو میں نہ آسکی فریقین بری طرح سے بپھرے ہوئے تھے اورپھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھاکہ ایوان میں کرسیاں چلنے لگیں کہاجاتاہے کہ اسی ہنگامہ آرائی میں ایک پیپرویٹ ڈپٹی سپیکر کے چہرے پرلگا بعض اطلاعات میں یہ بھی کہاگیاکہ ایک کرسی انہیں لگی جس سے ان کے چہرے پر گہرے زخم آئے انہیں فوری طورپر ہسپتال منتقل کردیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور دو روز بھی ہسپتال میں ہی دم توڑ گئے یوں یہ بدنما داغ ہمارے چہر ے پر ہمیشہ کے لیے لگ گیاکہ بدترین سیاسی محاذ آرائی کے ذریعہ ڈپٹی سپیکر کی جان لے لی اس واقعہ کے محض دوہفتے بعد ہی سات اکتوبر 1958کو جنرل محمدایو ب خان نے ملک بھر میں مارشل لگا دیاتھا مارشل کے جواز میں ڈپٹی سپیکر کے قتل کو بھی فہرست میں شامل کیاگیاتھا۔
بعض مبصرین کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبہ کے سیاسی عدم استحکام اورصوبائی اسمبلی میں بدترین ہنگامہ آرائی کے بعد ہی ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے منصوبے بنائے جانے لگے تھے گویا شاہد علی پٹواری کی موت اس سلسلہ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی اب اگر 64برس قبل مشرقی پاکستان کے سیا سی عدم استحکام اور اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی سیاسی صورتحال اور سولہ اپریل کو اسمبلی میں ہونے والی بدترین ہنگامہ آرائی کاجائزہ لیا جائے تو بہت سی مماثلتیں دکھائی دیتی ہیں تب بھی صوبائی اسمبلی میں حکومتی جماعت سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی اب بھی حکومتی جماعت نے ہی احتجاج کیاتب سپیکر اجلاس کی صدارت جا ری نہیں رکھ سکے تھے اس لیے ڈپٹی سپیکرکو معاملات سنبھالنے کے لیے میدان میں آناپڑا تھا اور اب بھی یہی ہوا سپیکر کے بجائے ڈپٹی سپیکر نے کاروائی چلانے کی کوشش کی تب ڈپٹی سپیکر کو سپیکر کی کرسی پر بیٹھنے نہیں دیاگیا تھا اب بھی یہی ہوا ڈپٹی سپیکر نے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی تو انہیں تشدد کانشانہ بناکر اسمبلی سے ہی نکل جانے پرمجبور کیاگیا بعد ازاں انہوں نے چیمبر سے کاروائی چلائی تب بھی ایوان میں پولیس داخل ہوئی تھی اور گذشتہ روزبھی یہی کچھ ہوا تب بھی پولیس بلانے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جاتی رہی گذشتہ روزبھی یہی الزام تراشیاں سننے کو ملیں اس قدرمماثلتوں نے یقینی طورپرسنجیدہ فکرسیاسی حلقوں کی تشویش میں اضافہ کردیاہے کیونکہ فی الوقت پنجاب کاسیاسی بحران تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔
اگر عدالت عظمیٰ نے منحرفین کے خلاف فیصلہ سنادیا توپھر پنجاب کی منحرفین کی حمایت سے قائم حکومت برقرار نہیں رہ پائے گی اور یوں ملک کے سب سے بڑے صوبہ کاسیاسی بحران پیچیدہ رخ اختیار کرسکتاہے جس کے اثرات پھر پورے ملک پر مرتب ہوسکتے ہیں پنجاب کی نئی حکومت اگرکسی وجہ سے سنبھل نہیں پاتی اور نتیجہ میں پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی سے استعفے دیتی اور اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوااسمبلی کو تحلیل کیاجاتاہے تو پھر حالات نئے الیکشن کی طرف سے جاتے دکھائی دیں گے لیکن اگر سیاسی بحران سے سیاسی انداز میں نمٹنے کی کوشش کے بجائے سیاستدان سیاسی مخالفت کو سیاسی مخاصمت میں تبدیل کرنے کے رویئے اختیار کرنے پرمصر رہے تو پھرسب کے ہاتھ سے سب کچھ جاسکتاہے شاہدعلی پٹواری سے لے کر دوست محمد مزاری تک کا سفر طے کرنے میں بہت وقت لگاہے بہت قربانیاں دینی پڑی ہیں چارمارشل لاؤں کاسامناکرناپڑاہے مگر لگتاہے کہ ہم اسی دائرے میں گھوم پھر کر پھر سے 1958کے دور میں داخل ہورہے ہیں اسی لیے سب کو بے لچک سیاسی رویوں پر نظر ثانی کرنا ہی پڑے گی ورنہ پھر الزام کسی اور پر نہیں بلکہ سیاسی قیاد ت پرہی آئے گا۔