اُداسی: یہ جو رات ہے اِسے ٹال دے

اِنسانی نفسیات و رجحانات سے متعلق علوم کے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کم سے کم 16عادات اپنا لے تو یہ اپنی زندگی بدل سکتا ہے لیکن اُسے ’یومیہ معمولات (Daily Habits)‘ پر نظرثانی کرنا ہوگی جس سے اُس کی زندگی ذہنی و روحانی سکون و اطمینان سے بھر سکتی ہے۔ معاشرے میں مہنگائی‘ بیروزگاری کے سبب جو معاشی پریشانی اور بے چینی عام ہے‘ اُس کے اثرات بنا کسی دوا بھی بڑی حد تک کم کئے جا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں پہلی ’یومیہ عادت‘ مسکرانا ہے۔ مسکرانے سے انسانی دماغ ’ڈوپامائن (Dopamine)‘ نامی ایک رطوبت خارج کرتا ہے جس سے سکون ملتا ہے۔ دوسری یومیہ عادت ورزش کی ہے جس کے ذریعے ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے۔ اِس سلسلے میں طبی ماہرین رات کے کھانے کے بعد کم سے کم پانچ منٹ کی چہل قدمی اور دن بھر میں کم سے کم تیس منٹ کی چہل قدمی ضروری قرار دیتے ہیں۔ تیسری یومیہ عادت پرسکون نیند ہے جو جسمانی اعضا اور بالخصوص دماغ کے درست کام کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ طبی ماہرین جسمانی صحت کے ساتھ جذباتی صحت کا خیال رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ چوتھی یومیہ عادت کھانے پینے سے متعلق ہے کہ اِس کے معمولات تبدیل کئے جاتے رہیں۔
 عموماً لوگ ایک ہی وقت کھانا کھاتے ہیں اور جب اُنہیں بھوک نہ بھی ہو تب بھی کھاتے ہیں کیونکہ کھانا پینا معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ طبی ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ دن میں کم سے کم ایک کھانا اپنی پسند کا ضرور کھانا چاہئے۔ خوشحال رہنے کیلئے پانچویں ’یومیہ عادت‘ کا تعلق دوسروں کا شکریہ ادا کرنے سے متعلق ہے۔ معمولی سے معمولی بات پر بھی اظہار تشکر کرنے سے اُمید اور خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ خوشحال رہنے کی چھٹی ’یومیہ عادت‘ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مثبت رائے کا اظہار کرنا ہے۔ کسی شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مسکرا کر جب کوئی اچھی بات کہی جاتی ہے تو اِس سے دونوں افراد خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کسی تناؤ یا صدمے کی صورتحال میں چند گہرے سانس لینا ساتویں ’یومیہ عادت‘ کے طور پر اختیار کرنی چاہئے اِس سے نہ صرف صدمے یا غصے کے اثرات کم ہوتے ہیں بلکہ صورتحال کے بارے میں غوروخوض کا وقت بھی ملتا ہے۔ آٹھویں ’یومیہ عادت‘ یہ ہے کہ ہمیشہ بُرے ایام کو یاد رکھا جائے اِس سے موجود آسودگی کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ نویں ’یومیہ عادت‘ اپنی یاداشتیں لکھ کر محفوظ رکھنے سے متعلق ہے جس کے ذریعے ہمیں ماضی کی اچھی بُری یادوں پر نظر ڈالنے کا موقع ملتا ہے اور اِن کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ دسویں ’یومیہ عادت‘ چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر نہ ہونے دینا ہے۔ 
گیارہویں ’یومیہ عادت‘ ہر روز دس سے پندرہ منٹ کوئی ایسا کام کریں جو مشکل دکھائی دے یا جسے طویل عرصے سے نہیں کیا گیا جیسا کہ اپنے کمرے کی صفائی۔ کتابوں کی جھاڑپونچھ وغیرہ۔ اپنے کام خود کرنے سے بھی خوشی ملتی ہے۔ بارہویں ’یومیہ عادت‘ دوست احباب سے ملاقات  یا کسی گھریلو پالتو جانور کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ توجہ اور ہمدردی کا اظہار چاہے انسانوں سے ہو یا جانوروں سے زندگی میں راحت لاتا ہے۔ تیرہویں ’یومیہ عادت‘ منصوبہ بندی کی ہونی چاہئے کہ ہر دن کے معمولات کی پہلے سے منصوبہ بندی کرنے کی عادت ڈالیں اور رفتہ رفتہ منصوبہ بندی کے بغیر کوئی بھی کام نہ کریں۔ چودہویں ’یومیہ عادت‘ موبائل فون کے استعمال میں کمی ہے۔ انسان کے اردگرد پھیلی کائنات موبائل فون سے ملنے والی معلومات یا تفریح سے زیادہ وسیع ہے۔ پندرہویں ’یومیہ عادت‘ قدرت کے ساتھ تعلق جوڑنے سے متعلق ہے کہ یومیہ کم سے کم پندرہ منٹ قدرت کا مشاہدہ کیا جائے۔
 ایک طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہفتے میں پندرہ منٹ قدرت کا مشاہدہ کرنے والوں میں فشار خون اور نفسیاتی دباؤ (ڈپریشن) کم پایا گیا۔ رواں ہفتے اقوام متحدہ نے خوشحال اور پریشان حال ممالک کی سالانہ جدول (انڈیکس) جاری کی ہے جس کے مطابق ’فن لینڈ‘ مسلسل پانچویں سال دنیا کا ’خوش‘ جبکہ ’افغانستان‘ کو دنیا کا سب سے زیادہ افسردہ ملک قرار دیا گیا ہے۔ یہ فہرست روس یوکرین حملے سے پہلے مکمل کی گئی تھی۔ گزشتہ برس بھی افغانستان نچلے درجے پر تھا جہاں بدترین انسانی بحران دیکھنے میں آ رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے دنیا کے خوشحال ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے اور خوش رہنے والے ملکوں میں پاکستان 103 جبکہ بھارت 136ویں نمبر پر ہے۔ لگاتار دسویں سال جاری ہونے والی ”ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ“ میں لوگوں کی خوشی کا پیمانہ معاشی اور سماجی حالات سے متعلق معلومات (ڈیٹا) کو دیکھا جاتا ہے‘ جو ہر تین سال کی مدت میں مرتب ہوتی ہے اور اس فہرست میں ایک مرتبہ پھر شمالی یورپ کا غلبہ ہے جہاں فن لینڈ کے بعد ڈنمارک دوسرے‘ سوئٹزرلینڈ تیسرے‘ آئس لینڈ چوتھے‘ ہالینڈ پانچویں اور ناروے چھٹے نمبر پر ہے۔ امریکہ سولہویں جبکہ فرانس بیسویں نمبر پر ہے۔ 
اس فہرست میں جی ڈی پی‘ سماجی معاونت‘ ذاتی آزادی اور بدعنوانی کی سطح کی مناسبت سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔ رواں برس کورونا وبا سے پہلے اور بعد میں لوگوں کے جذبات کا موازنہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا کوائف کا بھی استعمال کیا گیا اور اس کے نتیجے میں اٹھارہ ایسے ممالک معلوم ہوئے جہاں قومی اضطراب اور اداسی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کسی قوم کے خوش مزاج ہونے کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے کام سے کام رکھے جبکہ غیبت‘ بہتان‘ الزام تراشی‘ بیجا تنقید‘ حسد‘ فریب اور دوسروں کی ٹوہ میں رہنے جیسی عادات ترک کی جائیں۔ ”مرے خوش نظر‘ مرے خوش خبر …… یہ جو رات ہے‘ اِسے ٹال دے (اَمجد اِسلام اَمجد)۔“