گزشتہ چند سالوں سے ملک میں سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے عوام اپنا حق نہ صرف جان گئے ہیں بلکہ اس کیلئے آواز اٹھانا بھی شروع کر دیا ہے عوام کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام میں ان کے ووٹ سے لوگ وزیراعظم‘ وزیر اعلیٰ‘ وزیر‘ ایم این اے‘ ایم پی اے‘ میئر‘ چیئرمین اور کونسلر بنتے ہیں یہ الگ بات کہ کرسی کا نشہ عجیب ہوتا ہے اس پر بیٹھتے ہی کچھ لوگ اچانک بدل جاتے ہیں جو انتخابات سے قبل ہر گھر‘ ہر حجرے‘ ہرمسجد‘ دکان‘ دفتر کا چکر لگاچکے ہوتے ہیں اور لوگوں سے انکے قیمتی ووٹ کی درخواست کرچکے ہوتے ہیں عوام جس کو زیادہ ووٹ دیتے ہیں ان میں سے کچھ کامیاب ہو کر خود کو عام آدمی سے بالاتر تصور کرنا شروع کرتے ہیں۔ نہ ہی قانون سازی اور ملک کیلئے عوام دوست پالیسیاں بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں نہ ہی علاقے اور عوام کے مسائل کے حل کیلئے پرجوش دکھائی دیتے ہیں کئی تو ووٹ حاصل کرنے کے بعد دوبارہ اس وقت ہی نظر آتے ہیں جب ان کو دوبارہ بڑا آدمی بننے اور عہدہ حاصل کرنے کیلئے انہی عام غریب لوگوں کے ووٹ کی ضرورت پڑ جاتی ہے عوام میں جو لوگ سیاسی شعور رکھتے ہیں وہ تو سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالتے ہیں مگر اکثریت صرف من پسند جماعت‘ شخصیات‘ برادری یا کسی اور وجہ سے ایسے امیدواروں کو ووٹ دے جاتے ہیں۔
جس پر وہ پھر پچھتاتے رہتے ہیں مگر پھر انکے ہاتھ کچھ نہیں آتا یقینا بہت سے سیاستدان اور امیدوار ایسے بھی ہیں جو کئے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور حلقے کے عوام نے ان کو جس مقصد کیلئے منتخب کیا ہوتا ہے وہ اس مقصد پر پورا اترتے ہیں۔البتہ ہر ووٹر اور ہر عام آدمی کو اس بات کا احساس ضروری ہے کہ ان کا ووٹ بڑی حد تک انکے اور انکے علاقے اور ملک کے مسائل حل کرنے اچھی حکومت قائم کرنے ملک کو آگے بڑھانے معیشت بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اگر وہ ووٹ میرٹ پر اور قابل امیدوار کے حق میں ڈالا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ووٹ ڈالتے وقت میرٹ کی بجائے لوگ جماعتوں‘ برادری اور تعلق کو دیکھتے ہیں یا پھر تقریروں‘ نعروں اورجھوٹے دعوے سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
ایسے میں سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی میرٹ پر امیدواروں کو آگے لائیں،پارٹی اخراجات میں مدد کرنے والے اور فنڈز رائزنگ کے ذریعے آگے آنے والے انتخابات کے بعد عوام سے زیادہ اپنے مقاصد کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔ انکے خلاف اقدامات کی قوت اس لئے نہیں ہوتی کہ ان کے خرچ پر تو جماعتیں چل رہی ہوتی ہیں ہمارا مسئلہ صرف اسی دن حل ہوگا جس دن سیاسی جماعتیں میرٹ پر امیدواروں کو ٹکٹ اور عوام ان امیدواروں کو ووٹ دے گی ایک بڑا المیہ گزشتہ چند سالوں سے عدم برداشت کا رویہ ہے نہ صرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے رہنماؤں امیدواروں اور کارکنوں کیلئے نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔بلکہ میڈیا عام عوام پڑھا لکھا طبقہ یا جو بھی ان کی غلط پالیسیوں سے اختلاف کرتا ہے ان کے غلط اقدامات پر تنقید کرتا ہے ان کو بھی گالیوں اور بے عزتی کے ساتھ ساتھ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مستقل روک تھام کیلئے قائدین اور کارکنان کو سنجیدہ اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں نفرت اور بگاڑ پھیلنے سے پہلے ہی اس مسئلہ کا تدارک ہو۔