ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

مرزا غالب نے سو سال پہلے جو مصرعہ کہا تھا وہ آج بھی سو فیصد درست معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کواکب کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ہوتے کچھ اور نظر کچھ آتے ہیں اور یہ بازی گر لوگوں کو کھلا دھوکہ دیتے ہیں۔ آج ہم کواکب کو اشیائے ضروریہ کا نام دیتے ہیں جوبظاہر تو اصلی نظر آتی ہیں مگر ہوتی جعلی اور دو نمبری ہیں۔ایسی ہی جعلی مشروبات کا کاروبار رمضان کے مقدس مہینے میں بھی جاری ہے۔خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے کریک ڈان کرتے ہوئے تین ہزارلیٹرز سے زیادہ جعلی و مضر صحت مشروبات برآمد کرکے تلف کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔بتایاجاتا ہے کہ مس لیبل و غیر معیاری مشروبات تیار کرنے والی دو فیکٹریاں اور ایک ہول سیل یونٹ کوسیل کردیا گیا۔ان مشروبات کو ملٹی نیشنل برانڈز کے نام پر پیک کیا جارہا تھاان غیر معیاری مشروبات کو پشاورشہراور صوبے کے مختلف اضلاع کو سپلائی کیا جاتا تھا حکام نے جعلی مشروبات تیار کرنے کی فیکٹریوں کے مالکان پر بھاری جرمانہ عائد کردیا۔انسپکشن ٹیم نے کاروباری طبقے کو حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی آگاہی فراہم کی اور انہیں جعلی اور مضر صحت مشروبات کے کاروبار سے اجتناب کرنے کی تلقین کی۔
اردو کا ایک محاورہ ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے،ان کی کارستانیوں کی مذمت کافی نہیں،بلکہ ایسے کرتوتوں کے مرتکب افراد کی مرمت درکار ہوتی ہے۔ جعل سازی صرف مشروبات تک محدود نہیں، بازار میں ایک نمبر سے لے کر دس نمبر تک کی چیزیں دستیاب ہیں دیکھنے میں سب ایک جیسے ہی لگتے ہیں لیکن معیار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔کچھ خوف خدا رکھنے والے دکاندار بتاتے ہیں کہ اگر اصلی اور نسلی چیز خریدنی ہے تو اس کے دام زیادہ ہیں اگر دو،تین اور چار نمبری چیز درکار ہے تو اس کے دام کم ہیں لیکن کچھ پرچون فروش نقلی چیز بھی اصلی کے دام پر ہی بیچتے ہیں اور گاہک کو بے وقوف بنانے پر خوش ہوتے ہیں۔جہاں تک اشیائے خوردونوش کا تعلق ہے اس میں سب سے زیادہ ملاوٹ ہوتی ہے۔
 بازار میں تازہ دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں ایک نمبر دودھ کی قیمت 150روپے لیٹر، دو نمبر کی 130، تین نمبر کی 120اور چار نمبر کی قیمت110روپے ہے گاہک بخوبی جانتا ہے کہ ڈیڑھ سو والا دودھ اصلی ہے مگر وہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھ سکتا اس لئے کیمیکل ملا سستا دودھ خرید لیتا ہے بچوں کیلئے پیک دودھ کی بھی نقلی اقسام بازار میں آچکی ہیں۔بازار میں پیک دودھ کی بہت سی اقسام موجود ہیں انہیں دودھ کے نام پر فروخت کیاجاتا ہے حالانکہ ان میں سے اکثر کیمیکل ہوتے ہیں ان کے ڈبے لکھا بھی ہوتا ہے کہ یہ دودھ نہیں بلکہ چائے کا رنگ ہے۔کالی چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے اور مصالحوں میں لکڑی کے برادے اور سرخ اینٹیں پیس کر ملانے کے قصے اب کافی پرانے ہوچکے ہیں۔ چند ٹکوں کی خاطر کچھ لوگ انسانی زندگی سے کھیل رہے ہیں اور اپنے کئے پر پشیمان بھی نہیں ہیں۔ مردہ مرغیوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت بھی اصلی گوشت کی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔۔ حکومت کو اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ، جعل سازی اور انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان قوانین پر عمل کرکے قوم کے مجرموں کو نشان عبرت بنانا ہوگا تاکہ کاروبار کی آڑ میں کسی کو انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے کی جرات نہ ہو۔