اشیائے ضروریہ پر سبسڈی

خیبر پختونخوا حکومت نے آئندہ بجٹ میں عوام کو دالوں، گھی، چینی اور آٹے پر 25 سے 30 ارب روپے تک کی سبسڈی دینے کا عندیہ دیا ہے۔صوبائی وزیرخوراک نے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ رمضان المبارک کے دوران صوبہ بھر میں عوام کو سستے آٹے کی فراہمی جاری ہے۔ صوبے میں 127 سیلز پوائنٹس اورموبائل ٹرکوں کے ذریعے بیس کلو گرام آٹے کا تھیلا لوگوں کو 800روپے میں فراہم کیاجارہا ہے۔ٹماٹر کے نرخ دو سوروپے کلو تک پہنچ گئے تھے۔بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کیلئے ایران سے ٹماٹر درآمد کئے گئے اب ٹماٹر   پچاس  روپے کلو  تک ہر جگہ دستیاب ہے۔رمضان المبارک میں انتظامیہ کی جانب سے ذخیرہ اندوزی، غیر معیاری اشیائے خوردونوش کی فروخت، ملاوٹ اور گرانفروشی کے مرتکب افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ اب تک 80 لاکھ روپے جرمانہ وصول کیاگیا ہے جبکہ انتظامی سیکرٹریوں کو روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ کی مانیٹرنگ کی ہدایت کی گئی ہے۔حکومت کی طرف سے سیل پوائنٹس پر عوام کو سستے آٹے کی فراہمی بلاشبہ خوش آئند ہے۔

لیکن دیگر اشیائے ضروریہ کے داموں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔خاص طور پر گھی اور کوکنگ آئل ہر گھر کی ضرورت ہے جس کی قیمت پانچ سو روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔ جب متبادل چیز سستی مل رہی ہو تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن گھی اور کوکنگ آئل کا کوئی متبادل نہیں،اور ان کے بغیر کوئی بھی سالن نہیں بن سکتا۔ اس طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ حکومت نے بجٹ میں گھی، چینی، دالوں اورآٹے پر جس سبسڈی کا اعلان کیا ہے اگر رمضان المبارک کے دوران بھی عوام کو ان اشیائے ضروریہ پر رعایت دی جاتی تو غریب روزہ داروں کو کافی ریلیف مل جاتا۔ حکومت نے سرکاری سٹورز پر بھی سولہ اشیائے ضروریہ پر عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کیاتھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عام لوگوں کو سرکاری سیل پوائنٹس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ 80فیصد لوگ اوپن مارکیٹ سے ہی سودا سلف خریدتے ہیں حکومت اور انتظامیہ کو مخصوص مقامات پر رعایتی اشیاء کی فراہمی کے ساتھ مارکیٹ کنٹرول کا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے اور اوپن مارکیٹ کی نگرانی سخت کرنی چاہئے تاکہ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، گرانفروشی اور مصنوعی قلت پر قابو پایا جاسکے

۔صوبائی حکومت ماہانہ بنیادوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے اور اشیائے ضروریہ کے نرخنامے جاری کرتی ہے لیکن سرکاری نرخنامے اور کرایہ نامہ اور مارکیٹ میں رائج نرخوں میں انیس بیس کا نہیں بلکہ زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ صرف ایک مثال سے سرکاری کرایہ نامے اور موجودہ کرائے کا فرق واضح ہوتا ہے سرکار نے پشاور سے چترال عام گاڑیوں کا کرایہ ساڑھے چار سو اور ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں کا کرایہ چھ سو روپے مقرر کیا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ اڈوں پر مسافروں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہائی ایس گاڑیوں کا کرایہ بارہ سو روپے اور کوچز کا پندرہ سو روپے وصول کیاجاتا ہے جبکہ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ میں ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں چلانے کا کوئی تصور بھی نہیں۔ یہی تفاوت پشاور سے بنوں، ڈیرہ، دیر، سوات، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور دیگر اضلاع کو چلنے والی بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور سرکاری کرایہ نامہ میں ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کو  اس صورتحال کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔