پہلا توجہ طلب پہلو: سیاسی عدم رواداری کی حالیہ لہر عوام کے تمام طبقات میں سرایت کر گئی ہے اور اگر اِس پر قابو نہ پایا گیا تو اندیشہ ہے کہ سیاسی کارکنوں کے درمیان تصادم کی صورت پُرتشدد شکل اختیار کر جائے۔ ایک ایسا معاشرہ اور ایک ایسی معاشرتی سوچ جو پہلے ہی منتشر ہو‘ وہاں اگر انتشار کو مزید ہوا دی گئی تو یہ کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ دوسرا توجہ طلب پہلو: نفرت پھیلنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے سیاسی عدم رواداری بڑھ رہی ہے۔ انٹرنیٹ صارفین چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے یعنی شعوری و لاشعوری طور پر ایسے بحث مباحثوں کا حصہ بن رہے ہیں‘ جن کا نہ تو سر پیر ہوتا ہے اور نہ ہی نتیجہ اور اِن سے سوائے اختلافات برائے اختلاف اور بحث و تکرار برائے بحث و تکرار کوئی دوسرا نتیجہ برآمد نہیں ہوتا! اِس لمحہئ فکریہ پر بھی سیاسی رہنماؤں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اظہار میں اشتعال انگیزی سے روکیں اور ایسا ”منفی بیانیہ“ پیش کرنے سے گریز کریں جس سے نفرت میں اضافہ ہو۔
تیسرا توجہ طلب پہلو: صبح سے شام اور گردوپیش میں پھیلی سیاست کی وجہ سے بچے منفی اثر لے رہے ہیں۔ کیا ہمارے سیاسی بڑوں نے کبھی اِس بارے میں سوچا کہ گھر گھر اخبارات‘ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے پہنچنے والی سیاسی بحث و مباحثوں کا منفی اثر ہمارے بچوں پر کس قدر ہو رہا ہوگا؟ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ’من کا سچا‘ یہ طبقہ بھی سیاسی موضوعات اور نعروں میں الجھ کر رہ گیا ہے! کم سے کم بچوں کو سیاست سے بالکل اُسی طرح الگ رکھنا چاہئے جس طرح دوا کی بوتل پر تحریر ہوتا ہے کہ اِسے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں!مذکورہ تینوں توجہ طلب پہلو اُس بنیادی سماجی مسئلے کی شاخیں ہیں‘ جن سے مزید شاخیں پھوٹ رہی ہیں۔ غیرمعمولی رجحان ہے کہ حالیہ دنوں میں عام آدمی (ہم عوام) کی ایک بڑی تعداد نے سیاسی مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح کی بات چیت میں اکثر گرما گرمی بھی ہو جاتی ہے اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے خصوصاً رمضان میں بات بات پر جھگڑوں کا ویسے بھی اندیشہ رہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کئی مثالیں معاشرے میں بڑھتی پھیلتی پھولتی سیاسی عدم رواداری کا عکس ہے جبکہ ایسے واقعات ایک تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ سیاسی عدم رواداری میں اضافے کے ’نفسیاتی پہلو‘ بھی ہیں جبکہ اِس ’مرض‘ کے پھیلنے کی وجہ معلومات کا تیزی سے تبادلہ ہے‘
جس میں خبر کے ساتھ طنزیہ اور چٹخارے دار تبصرہ بھی کچھ اِس انداز میں شامل کر دیا جاتا ہے جس سے سیاسی اختلاف رائے رکھنے والے ہتک محسوس کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات شروع دن سے سوشل میڈیا کے اندھا دھند پھیلاؤ کی جانب توجہ دلا رہے تھے جہاں صارفین کو یہ سمجھے بغیر معلومات مل رہی ہوتی ہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسی معلومات پھیلتی ہیں جو سوفیصد درست نہیں ہوتیں اور انہیں قبول کرنے والے بنا تحقیق اِن پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے تجویز ہے کہ سیاسی رہنما ملک کے وسیع تر مفاد میں ذومعنی اور تنقیدی جملوں پر مبنی بیانات دینے سے گریز کریں کیونکہ کسی جلتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنے سے اُسے بجھایا نہیں جا سکتا۔ کورونا وبا کی وجہ سے معاشی پریشانیاں اور مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ بھی سیاسی عدم رواداری کے ماحول میں خرابیوں کا باعث بن رہا ہے جبکہ سیاسی غیر یقینی صورتحال نے ہم عوام کی اکثریت کو ذہنی طور پر پریشان کر رکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک بیانیہ موجود ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی تازہ خبر میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہوتی لیکن اِس سے سماجی تعلق کمزور اور سیاسی عدم رواداری پہلے سے مضبوط ہو رہی ہے اور اِس سنجیدہ مسئلے (سیاسی عدم رواداری) کے حل بارے قومی سطح پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔