ملک میں سیاسی استحکام کے تقاضے

مرکز میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو فارع کرنے کے بعد اتحادی جماعتوں کی مشترکہ حکومت نے وفاقی کابینہ تشکیل دی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی 34رکنی کابینہ نے ایوان صدر میں حلف اٹھا لیا ہے۔ جس کے ساتھ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے ڈیڈ لاک کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ وفاقی کابینہ میں چودہ وزارتیں مسلم لیگ ن کو مل گئی ہیں جن میں داخلہ‘ قانون‘خزانہ‘ریلوے‘ ایوی ایشن،اطلاعات، دفاع اور منصوبہ بندی جیسے اہم محکمے شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کو خارجہ امورسمیت نو وزارتیں مل گئی ہیں جمعیت علمائے اسلام کے حصے میں چار، ایم کیوایم کو دو جبکہ بی این پی اور جے یو پی کو ایک ایک وزارت دی گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، بلاول بھٹو اور بی اے پی کے دو وزراء بعد میں حلف اٹھائیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر معاشی کساد بازاری، مہنگائی اور بے روزگاری کی موجودہ فضا میں وفاقی حکومت کیلئے عوامی توقعات اور اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنا اگرچہ ناممکن نہیں تاہم انتہائی مشکل ہے۔ ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں عارضی طور پر کم ہونے کے بعد ایک بار پھر بڑھتی جارہی ہے۔
 تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے تھرمل پاور سٹیشنز سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اقتدار میں آنے کے ایک ہفتے کے اندر حکومت کو گھی، کوکنگ آئل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 80روپے سے زائد فی لیٹر اضافے کی سمری حکومت کو بھیجی گئی تھی۔ پندرہ دنوں کیلئے موجودہ قیمت برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے تاہم حکومت کیلئے تیل کی قیمت بڑھائے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں عوام کو کیسے ریلیف پہنچایاجاسکتا ہے یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے میں ریلیف کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی نئی حکومت اگر اپنے وعدے پورے نہ کرسکی تو اگلے انتخابات میں ا ن کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ حکومت بجٹ کے بعد اسی سال عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ 
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی فوری طور پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان بھی انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، روزمرہ ضرورت کی اشیاء کے نرخوں میں کمی، اوربیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی موجودہ حکومت کے لئے چیلنج ہیں۔ کہا جاتا ہے حکومت میں شامل بڑی جماعتوں کو ان مشکلات کا اندازہ تھا اور وہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی لانے کے بجائے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے حق میں تھیں لیکن اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتوں اور منحرف ارکان کا اصرار تھا کہ پی ٹی آئی کو آئینی مدت پوری کرنے نہ دی جائے۔
پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی لانا جمہوری عمل کا حصہ ہے۔موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت 2023کے آخر تک مکمل ہوگی‘ جب سیاسی جماعتیں عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتی ہیں تو عوام سے رجوع کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔ صاف اور شفاف انتخابات کہ جس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہیں اورانتخابی اصلاحات سے یہ مرحلہ آسانی کے ساتھ سر ہو سکتا ہے تمام سیاسی قائدین پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں۔