پہلا نکتہ: کسی سرکاری یا نجی اِدارے کے مالیاتی اور غیرمالیاتی امور بالخصوص شفاف مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے جس علم (پیمانے) کا سہارا لیا جاتا ہے‘ اُسے ’اکاؤنٹنگ‘ کہتے ہیں جس کی کئی شاخوں میں سے ایک کا تعلق ’سرمایہ کاری پر منافع کے امکانات‘ کا اندازہ لگانے بھی شامل ہے اور اِس مقصد کے لئے سائنسی بنیادوں پر اعدادوشمار جمع کرنے سے حاصل نتیجے کو ”مجموعی سالانہ شرح نمو (کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ)“ کہا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو ”مجموعی سالانہ شرح نمو“ کا مطلب کسی کاروبار سے ایک سال یا آئندہ کئی برس پر محیط کاروباری عرصے کے دوران متوقع آمدنی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ بوتلوں میں بند پانی (bottled water) سے متعلق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ”آئندہ پانچ سال (2022ء سے 2027ء کے درمیانی عرصے) کے دوران اِس کاروبار میں ”10.46 فیصد“ کے تناسب سے اِضافہ ہوگا۔“
ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا کے دوران (فروری دوہزاربیس) سے بوتلوں میں بند پینے کا پانی استعمال کرنے کا رجحان بڑھا ہے اور بالخصوص جب وبا کی وجہ سے ایک غیریقینی کی صورتحال تھی تو اُس میں لوگ جہاں دیگر غذائی اجناس اپنی اپنی مالی سکت کے مطابق ذخیرہ کر رہے تھے وہیں بوتلوں میں بند پانی کی مانگ (طلب) میں بھی اِضافہ دیکھا گیا اور تب سے یہ رجحان برقرار ہے کیونکہ چھوٹے بڑے شہروں میں حکومت کی جانب سے فراہم کیا جانے والا پینے کا پانی نہ تو معیار اور نہ ہی مقدار کے لحاظ سے تسلی بخش ہے۔ بوتلوں میں بند پانی کی فروخت میں اضافے کا دوسرا سبب (ضمنی پہلو) کمپنیوں کی طرف سے تبدیل شدہ مارکیٹنگ ایکٹس (کاروباری حکمت ِعملیاں) ہیں جس میں اُنہوں نے بنا کسی اضافی لاگت (چارجز) گھروں پر پانی پہنچانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور صارفین فون کے ذریعے باسہولت خریداری کرتے ہوئے حسب ضرورت پانی طلب کر سکتے ہیں اور بازار سے خریدنے کے مقابلے گھر بیٹھے خریداری پر اُنہیں رعایت بھی دی جاتی ہے۔
دوسرا نکتہ: بوتلوں میں بند پانی کو ”صحت مند اور محفوظ“ سمجھا جاتا ہے‘ جس کی ایک وجہ ’ذرائع ابلاغ‘ کے ذریعے کامیاب تشہیری مہم ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب پانی جیسی عام جنس مہنگے داموں فروخت کرنے کیلئے اِسے بطور ’فیشن‘ متعارف کرایا گیا چونکہ حکومت کی جانب سے آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب سے پینے کے پانی کی فراہمی میں اضافہ نہیں کیا گیا اِس لئے بطور فیشن (آسائش) متعارف ہونے والا پانی ضرورت بن گیا اور اِس سے ملکی و غیرملکی کمپنیاں بھرپور فائدہ اُٹھانے لگیں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ سخت ترین معاشی حالات میں بھی بوتلوں میں بند پینے کا پانی سالانہ قریب ساڑھے دس فیصد کے تناسب سے شرح نمو رکھتا ہے! پہلی بات یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی شہری آبادی کی ضرورت کیلئے پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پینے کے صاف پانی کی اہمیت و ضرورت سے متعلق عوامی شعور کی سطح ایک درجہ بلند ہو چکی ہے اور اِسی وجہ سے بوتل بند (محفوظ) پانی کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں پانی فروخت کرنے والے 3 بین الاقوامی برانڈز کے علاوہ 130سے زائد مقامی برانڈز رجسٹرڈ ہیں جبکہ اندازہ ہے کہ چھوٹے پیمانے پر پانی کی فروخت کا کاروبار کرنے والے 50 سے زائد برانڈز غیررجسٹرڈ بھی ہیں۔تیسرا نکتہ: پاکستان میں پانی کے وسائل پر تحقیق کا ایک حکومتی ادارہ ”کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسوریسز (PCRWR)“ 1964ء میں قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ دیگر امور کے علاوہ بوتلوں میں بند پانی کے معیار پر بھی نظر رکھتا ہے اور اِس سلسلے میں وقتاً فوقتاً حقائق جاری کرتا ہے جن کی نقول (سافٹ کاپیز) اِن کی ویب سائٹ (pcrwr.gov.pk) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ ’پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل نے حالیہ سہ ماہی رپورٹ جاری کی ہے جس میں جنوری تا مارچ 2022ء کا احاطہ کیا گیا ہے اور اِس کے مطابق بوتلوں میں بند پانی کی کم سے کم 17 اقسام (برانڈز) ”غیرمعیاری“ ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ یہ ادارہ بوتلوں میں بند پانی کے معیار کی سہ ماہی بنیادوں پر نگرانی (مانیٹرنگ) کرتا ہے اور پشاور سمیت 21 شہروں سے حاصل کردہ بوتلوں میں بند پانی کے نمونے حاصل کئے گئے تھے۔ حقائق کا لب لباب یہ ہے کہ 10 اقسام کے پانی میں سوڈیم‘ سنکھیا اور پوٹاشیم کی مقدار محفوظ معیار (سٹینڈرڈ) سے زیادہ پائی گئی جبکہ پانچ برانڈز کے پانی میں مختلف جراثیم جیسی آلودگی تھی۔ توجہ طلب ہے کہ یہ غیرمعیاری اور غیرمعروف کمپنیوں کا پانی علاج گاہوں (ہسپتالوں)‘ بس اڈوں‘ ریلوے اسٹیشنوں‘ اکثر تعلیمی اداروں کی چاردیواریوں کے اندر موجود کینٹینز‘ ائرپورٹس اور سرراہ فروخت کیا جاتا ہے اور چونکہ غیرمعروف کمپنیوں کی جانب سے فروخت کیا جانے والا آلودہ یا غیرمعیاری پانی معروف اداروں کی نسبت زیادہ فروخت ہوتا ہے کیونکہ اِس کی قیمت کم اور مارکیٹنگ کی حکمت ِعملی معروف اداروں کی نسبت چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہے اِس لئے صحت کی بجائے یہ پانی یرقان‘ معدے‘ جگر اور گردے کے امراض کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور صورتحال کا افسوسناک اور قابل مذمت پہلو یہ بھی ہے۔
یہ انکشاف پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ آلودہ پانی کی فروخت ہو رہی ہے بلکہ مذکورہ ادارہ ہر تین ماہ بعد ایک جیسا حقائق نامہ جاری کرتا ہے لیکن آلودہ یا غیرمعیاری پانی کی فروخت کا دھندا جو گلی محلوں میں قائم ’واٹر کمپنیوں‘ سے فراہم ہوتا ہے‘ اِس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔ یہی صورتحال دیگر اشیائے خوردونوش بالخصوص عموماً زیادہ استعمال ہونے والی خشک چائے سیاہ کی پتی‘ مصالحہ جات‘ دودھ و دہی کی بھی ہے‘ جن کے غیرمعیاری ہونے کے بارے میں حکومتی ادارے حقائق تو پیش کرتے ہیں لیکن اِن حقائق کی روشنی میں اَشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کیوں نہیں کی جاتی؟