پشاور کہانی: وقت کب ہاتھ سے پھسل جائے

شاعر روبینہ ممتاز روبی نے کہا تھا کہ ”وقت کب ہاتھ سے پھسل جائے …… زندگی موت میں بدل جائے!“ اِس شاعرانہ تصور کا عملی زندگی اطلاق جب گردوپیش پر کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِنسان اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی اور بربادی کے سامان پیدا کر رہا ہے اور اگر یہ تجاہل عارفانہ یعنی حقیقت کے باوجود مسلسل انکار کا طرزعمل جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ کرہئ ارض پر زندگی موت سے بدل جائے گی اور یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور میں ”فضائی آلودگی“ سے متعلق ایک حالیہ تحقیق سے علم ہوا ہے کہ ”پشاور شہر کے کئی حصے ایسے ہیں کہ وہاں سانس تک لینا زندگی کے لئے خطرات قرار دیا گیا ہے۔“ اور جب ہم ہوا میں موجود انتہائی باریک ذرات کی صورت پھیلی ’جان لیوا آلودگی‘ کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو فضائی آلودگی کی بلند شرح کے حوالے سے مذکورہ انکشاف اِس لئے بھی باعث تشویش دکھائی دیتا ہے کیونکہ ایک وقت تھا جب پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اور یہاں کی آب و ہوا اِس قدر خالص ہوتی تھی کہ دنیا بھر میں بطور مثال پیش کی جاتی لیکن آج وہی پشاور گردآلود اور زہرآلود ہے جبکہ انواع و اقسام کی آلودگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔محتاط اندازہ ہے کہ دنیا کے چند آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل پشاور کی فضائی آلودگی سے کم و بیش 50 لاکھ مقامی جبکہ 10 لاکھ سے زائد غیرمقامی افراد متاثر ہیں اور اِس وجہ سے لاحق امراض میں اضافے کے باعث صحت عامہ پر حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ آلودہ فضا میں سانس لینے سے کسی بھی جاندار کی عمر دو سے تین سال کم ہو جاتی ہے! یہ سبھی حقائق ’پشاور کلین ائر الائنس‘ نامی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں منظرعام پر آئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کی تیاری میں مختلف ملکی و غیرملکی اداروں کی مالیاتی و تکنیکی معاونت حاصل کی گئی ہے جن میں کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس برطانیہ (ایف سی ڈی او) اور پائیدار توانائی اور اقتصادی ترقی سے متعلق خیبرپختونخوا کا پروگرام (سیڈ) جسے ایڈم سمتھ انٹرنیشنل کی سرپرستی حاصل ہے شامل ہیں۔ ”پشاور میں فضائی آلودگی کی اوسط قومی اور صوبائی معیارات کے مقابلے چار سے پانچ گنا زیادہ جبکہ عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار کے مطابق ’بارہ سے سولہ گنا‘ زیادہ ہے اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والے محرکات و اسباب پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے مختلف حصوں بالخصوص مصروف شاہراؤں اور تجارتی مراکز جہاں ہر قسم کی گاڑیوں (ٹریفک) کی آمدورفت زیادہ رہتی ہے‘ وہاں فضا میں آلودگی ناپنے کے آلات نصب نہیں ہیں تاہم متعلقہ حکومتی ادارے کے پاس فضائی آلودگی ناپنے کی گشتی سہولت ہے جس سے وقتاً فوقتاً کام لیا جاتا ہے اور ’تحفظ ِماحول‘ کا حکومتی ادارہ بھی متعدد مرتبہ اِس جیسے ہی اعدادوشمار جاری کر چکا ہے لہٰذا پشاور میں ’فضائی آلودگی‘ کوئی نئی بات نہیں البتہ نئی بات یہ ہے کہ ملک کے دیگر حصوں اور عالمی سطح پر فضائی آلودگی کے معیار جیسے پیمانے پر پشاور آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے اور اِس کا بنیادی سبب ’پیٹرولیم مصنوعات‘ کا استعمال ہے جیسا کہ رپورٹ کے ایک حصے میں توجہ دلائی گئی ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ مالی سال دوہزاربیس اکیس کے دوران ضلع پشاور میں قریب آٹھ لاکھ ٹن پیٹرولیم ایندھن استعمال کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ پشاور میں فضائی آلودگی پیدا کرنے کے بڑے اسباب میں ٹرانسپورٹ‘ صنعت‘ گھریلو پیمانے پر ٹھوس ایندھن کا استعمال‘ شہر سے اکٹھا کیا جانے والا کوڑا کرکٹ اور فضلہ جلانے جیسے محرکات شامل ہیں کیونکہ اِن سب سے ’کثیف دھواں‘ پیدا ہوتا ہے۔ سال دوہزار بارہ سے دوہزاربیس کے درمیان پشاور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد میں پچاسی فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اِسی عرصے کے دوران یعنی گزشتہ برس کے مقابلے 168.8 فیصد زیادہ موٹرسائیکل رجسٹرڈ ہوئے ہیں لیکن پشاور میں صرف ضلع پشاور کی مقامی رجسٹرڈ گاڑیاں ہی نہیں چلتیں بلکہ نجی گاڑیاں رکھنے والوں کی اکثریت ’اسلام آباد (وفاقی دارالحکومت)‘ کی رجسٹرڈ گاڑیاں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو پشاور میں آمدورفت کا نظام انتہائی غیرمنظم ہے۔ پشاور کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی سڑکوں پر ’پرانی سے پرانی‘ اور ’نئی سے نئے‘ ماڈل کی گاڑی فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں۔ دھواں اگلنے والی گاڑیوں بالخصوص مال برداری اور پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیاں‘ آٹو رکشہ صوتی اور فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ضلع پشاور کا کل رقبہ ’ایک ہزار پانچ سو اٹھارہ کلومیٹر‘ اُور یہاں کی 92یونین کونسلیں نئے بلدیاتی نظام کے تحت مزید 7 تحصیلوں میں تقسیم ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ضلع پشاور کی مذکورہ 7 تحصیلوں (پشاور سٹی تحصیل‘ شاہ عالم تحصیل‘ متھرا تحصیل‘ چمکنی تحصیل‘ بڈھ بیر تحصیل‘ پشتہ خرہ تحصیل اور حسن خیل تحصیل) میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 19 لاکھ تھی‘ اِس تناسب کو اگر خاندان کی اوسط سے دیکھا جائے تو پشاور کی آبادی کسی بھی طرح ستر لاکھ سے کم نہیں۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ سال 2018ء کے عام انتخابات کے موقع پر ضلع پشاور میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 16 لاکھ 93 ہزار 386 تھی جن میں 9 لاکھ 79 ہزار سے زیادہ مرد اُور 7 لاکھ 13 ہزار سے زیادہ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز تھے۔ ووٹروں کے اندراج سے متعلق اِس تناسب سے عیاں ہے کہ پشاور کی آبادی سے متعلق حکومتی اداروں کے اعدادوشمار درست نہیں اور اِن میں فرق بھی نمایاں ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہو لیکن رجسٹرڈ ووٹر کم ہو رہے ہوں ایسا ممکن نہیں ہے۔ لب لباب (بنیادی بات) یہ ہے کہ مذکورہ ”ائر کوالٹی رپورٹ“ میں پشاور کو پاکستان کا تیسرا جبکہ دنیا کا نواں آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے اور اِس سے زیادہ بڑی اور بُری خبر کوئی دوسری نہیں ہو سکتی!