خاندان کے ریکارڈ کا درست اندراج

صحت کارڈ پروگرام خیبر پختونخوا حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جس کے تحت صوبے میں مقیم ہر خاندان کو سالانہ دس لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اب تک لاکھوں افراد اس سکیم سے استفادہ کرچکے ہیں تاہم بعض لوگوں کو شناختی دستاویزات میں کوتاہیوں کی وجہ سے مفت علاج پروگرام سے استفادہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صحت کارڈ کے تحت مفت علاج کی اہلیت جاننے کے اپنا شناختی کارڈ نمبر 9780 پر بھیجنے سے شہریوں کو نادرا کی طرف سے  پیغام موصول ہوتا ہے‘ وہ تمام شہری جن کا نام نادراکے ریکارڈ سے صحت کارڈ منتقل نہیں ہوسکا۔ان کی معلومات کیلئے اہلیت نہ ہونے کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ نادرا ریکارڈ میں شوہر کا اندراج بطور خاندان سربراہ نہیں ہواہو‘ بیوی کا ریکارڈ والد کے ساتھ درج ہو اور ابھی تک شوہر کیساتھ اس کا ریکارڈ درج نہیں کروایا گیاہو‘ شوہر کا انتقال ہوچکا ہو لیکن بیوہ کا ریکارڈ بطور خاندان سربراہ نہیں کروایا گیا‘ شادی شدہ بیٹے والد کے خاندان میں بطور غیر شادی شدہ افراد درج ہوں اور علیحدہ سے بطور خاندان سربراہ ان کا ریکارڈ درج نہیں کروایا گیا ہو‘ بچوں کے فارم ب نہیں بنوائے گئے ہوں، خاندان کے 18 سال سے زائد عمر کے افراد کا شناختی کارڈ نہیں بنوایا گیاہو‘شناختی کارڈ پرمستقل پتہ خیبرپختوخوا کا نہ ہو‘یہ وہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر کسی شہری کو 9780 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیجنے کی صورت میں نااہلیت کا پیغام موصول ہوتا ہے‘ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ صحت کارڈ پلس کے فوائد سے مستفید ہونے کیلئے نادرامیں اپنے خاندان کا ریکارڈ 30 جون سے پہلے درست یا درج کروائیں کیونکہ جولائی میں تجدید شدہ ریکارڈ صحت کارڈ پلس میں شامل کرلیا جائے گا اور جو شہری نادرامیں اپنے ریکارڈ کی 30 جون تک شمولیت یا درستگی نہیں کروائیں گے ان کو جنوری 2023 تک تجدید شدہ ریکارڈ کی صحت کارڈ پلس پروگرام میں شمولیت کا انتظار کرنا پڑے گا۔صحت کارڈ پر مفت علاج کیلئے انشورنس کمپنی ہسپتالوں کو رقم ادا کرتی ہے اس سلسلے میں حکومت اور انشورنس کمپنی کے درمیان تحریری معاہدہ طے ہوچکا ہے۔ مکمل دستاویزات اور شناخت کے بغیر انشورنس کمپنی علاج کی رقم نہیں دیتی جس کی وجہ سے صحت مراکز کو مالی نقصان ہوسکتا ہے اس وجہ سے تمام دستاویزات کی درستگی کو مفت علاج کیلئے پیشگی شرط قرار دی گئی ہے۔ خاندان کے ریکارڈ کی درستگی صرف علاج معالجے کیلئے ہی نہیں، بچوں کے داخلے، جائیداد کی تقسیم، وراثت، تعلیمی اسناد، وظائف کے حصول، بینکوں سے قرضے لینے، جائیداد کے لین دین،حق رائے دہی استعمال کرنے، بجلی و گیس کے کنکشن کے حصول سمیت ہر جگہ درست کاغذات درکار ہوتے ہیں۔حکومت نے عوام کی سہولت کیلئے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کو ہی صحت کارڈ قرار دیا ہے۔ مفت علاج کی سہولت ہسپتال میں داخل مریضوں کو ہی دیا جاتا ہے جس میں دل کا آپریشن، گردوں کی پیوندکاری، ڈائیلاسز، لیور ٹرانسپلانٹ جیسے مہنگے علاج اور آپریشن بھی شامل ہیں۔ جس پر لاکھوں روپے کا خرچہ آتا ہے انشورنس کمپنی کو آڈٹ کیلئے بھی مکمل دستاویزات درکار ہوتی ہیں اس کیلئے قومی شناخت کارڈ کی فوٹوکاپیاں جمع کرانی ہوتی ہیں جن کا ریکارڈ ہسپتال، محکمہ صحت اور انشورنس کمپنی کے پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کمر توڑمہنگائی کے اس دور میں علاج کروانا عام آدمی کیلئے سوہان روح ہے مفت علاج کی سہولت ان لوگوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں جن کے پلے پھوٹی کوڑی نہیں ہوتی اور ان کی زندگی کسی مہلک مرض یا حادثے کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ بیماری ہر انسان کو لاحق ہوسکتی ہے اور کسی بھی وقت نازل ہوتی ہے اس لئے ہر شہری کو اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی بچانے کیلئے اپنے خاندان کے ریکارڈ کا درست اندراج کروانا چاہئے۔