زرعی ترقی: مال مویشی افزائش

پاکستان کے زرعی شعبے میں ’مال مویشیوں (لائیو سٹاک)‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ زرعی معیشت و معاشرت کا ایک لازم جزو سمجھا جاتا ہے۔ مال مویشیوں کی اہمیت اور آبادی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں زراعت سے وابستہ کم و بیش ”80 لاکھ“ خاندانوں کیلئے یہی روزگار کا بنیادی یا ثانوی ذریعہ ہے۔ گوشت اور گوشت کی مصنوعات غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن کی خاص اہمیت ہے کہ یہ پروٹین کا ایک بڑا ماخذ ہے اور اِس سے ضروری وٹامنز اور معدنیات حاصل ہوتی ہیں۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی‘ آمدنی کی سطح اور خوراک کے انتخاب کی وجہ سے صحت مند‘ حفظان صحت اور محفوظ گوشت اور گوشت کی مصنوعات کیلئے صارفین کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ ”حلال“ غذاؤں کے استعمال کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے بالخصوص ’کورونا وبا (دسمبر 2019ء)‘ کے بعد سے دنیا کے وہ ممالک جہاں پروٹین حاصل کرنے کیلئے حلال و حرام کی تمیز نہیں کی جاتی تھی اور کچھ بھی کھا لیا جاتا تھا لیکن اب وہاں بھی ’حلال غذاؤں‘ کے بارے میں جاننے اور اِن کے نسبتاً زیادہ استعمال کی اطلاعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حلال غذاؤں کی عالمی تجارت کا تخمینہ تین کھرب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور اس میں گوشت کا شعبہ تقریبا چھ سو ارب ڈالر کا حجم رکھتا ہے۔ دنیا میں حلال گوشت اور حلال گوشت سے بنی مصنوعات کی مانگ بڑھ رہی ہے‘ جس سے مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ پاکستان اگر اِس سلسلے میں کوشش کرے تو گوشت اور گوشت سے بنی ہوئی مصنوعات کو باآسانی تمام خلیجی ممالک میں زیادہ بڑے پیمانے پر برآمد کر سکتا ہے۔پاکستان میں گوشت کی صنعت کافی بڑی اور اِس میں وسعت کی گنجائش و امکانات موجود ہیں لیکن اِس سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ کوئی ایک حکومت آتی ہے جو زراعت اور لائیوسٹاک کی ترقی میں دلچسپی لیتی ہے تو اچانک صورتحال بہتر ہو جاتی ہے اور پھر آئندہ حکومت ماضی کے منصوبوں کو بند کر کے نئی ترجیحات کا تعین کر لیتی ہے اور یوں لائیوسٹاک کے شعبے میں ہونے والی ترقی یا پیشرفت رک جاتی ہے جس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ جن منصوبوں کیلئے افرادی قوت بھرتی کی جاتی ہے‘ اُن منصوبوں کی خاطرخواہ سرپرستی نہ کرنے کے باوجود بھی ملازمین کا بوجھ کم نہیں کیا جاتا اور یوں حاصل شدہ ترقی وقت گزرنے کے ساتھ خزانے پر بوجھ بنتی چلی جاتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے یک سوئی سے گوشت کی بڑھتی ہوئی مقامی اور عالمی طلب پورا کرنے کیلئے لائیو سٹاک کی پیداوار (نسل کشی) اور گوشت و دودھ کی پراسیسنگ کی سہولیات کو فروغ دے تاکہ ہمارا کاشتکار اور مال مویشی پالنے والے محنت کش حضرات منظم انداز میں کاروبار کر سکیں۔پاکستان کے اقتصادی جائزے (سال 2020-21ء) کے مطابق ”ایک سال کے دوران 4.9 ملین ٹن گوشت کی پیداوار حاصل ہوئی جس میں سے قریب 96 ٹن یعنی 2 فیصد گوشت برآمد کیا گیا اور یہ برآمدات بھی خلیجی تعاون کونسل نامی تنظیم کے چھ رکن ممالک (بحرین‘ کویت‘ عمان‘ قطر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات) اور مشرق بعید کے 22 ممالک شامل ہیں۔ یہ ممالک شمالی ایشیا‘ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیائی خطے کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن پاکستان سے گوشت کی برآمدات نہ تو خلیجی تعاون کونسل کے سبھی ممالک کو اور نہ ہی مشرق بعید میں شامل تمام ممالک کو باقاعدگی سے کی جاتی ہیں گویا یہ غیرمنظم برآمدات ہیں‘ جن کا حجم اور برآمدای امکانات طلب کے ساتھ بڑھتے یا کم ہوتے رہتے ہیں اور اِس میں پاکستان کی حکمت عملی (تدبر و تدبیر) کا زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان سے گوشت کی برآمدات کو اگر دنیا کے دیگر حصوں تک نہیں پہنچایا جاتا اور نئی منڈیوں کی تلاش نہیں بھی کی جاتی تو کم سے کم پاکستان کے گردوپیش یعنی خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک اور مشرق بعید کے تمام (یعنی مجموعی طور پر اٹھائیس) ممالک ہی کو گوشت کی برآمدات کی جا سکتی ہیں لیکن اِس سلسلے میں پاکستان کے سفارتخانے اور برآمدات کے فروغ کی ذمہ داری ادا کرنے والے فیصلہ سازوں کو زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں گوشت خوری ضرورت سے زیادہ ہے۔ خوراک میں گوشت کے تناسب سے متعلق عالمی معیار یہ ہے کہ ہر شخص ایک سال میں اوسطاً 32.2 کلوگرام گوشت استعمال کرے۔ دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 8 کروڑ 81 لاکھ 56 ہزار (881 ملین) ٹن سالانہ گوشت کی پیداوار دینے والا چین پہلے نمبر پر ہے جبکہ اِس کے مقابلے پاکستان صرف 5 ملین ٹن گوشت پیدا کرتا ہے پاکستان کو چین کے ساتھ اپنی مثالی دوستی اور برادرانہ تعلقات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زرعی شعبے اور لائیوسٹاک کی افزائش کے سلسلے میں چین کے تجربات بالخصوص اِس شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال و تجربات سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ جس طرح پاک چین صنعتی علاقے اور صنعتی بستیاں بنائی جا رہی ہیں بالکل اِسی طرح ’زرعی ترقی‘ اور ’مال مویشیوں کی افزائش‘ جیسے اہداف کو ذہن رکھتے ہوئے بھی ’زرعی صنعتی بستیاں اور تدریسی و تجرباتی جامعات‘ بنائی جا سکتی ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں گوشت کی پیداوار اب بھی روایتی طریقوں سے کی جاتی ہے اور زراعت کی طرح مال مویشیوں کی پیداوار بھی کم ہے تاہم گزشتہ چند سالوں سے گوشت کی سالانہ پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ سال دوہزارتین سے اب تک پاکستان کی گوشت کی صنعت میں سالانہ ستائیس فیصد کے تناسب سے ترقی ہوئی ہے۔ پاکستان سے گائے کا گوشت (meat) اہم برآمدی جنس ہے تاہم اِس کی پیداوار میں اضافے پر توجہ سے ملکی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ فیصلہ ساز ایسی برآمدی مصنوعات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جس کیلئے خام مال اور مشینری بیرون ملک سے برآمد کرنا پڑے لیکن زراعت اور مال مویشی ایسے شعبے ہیں جن کیلئے خام مال اور خوراک کے وسائل اندرون ملک ہی موجود ہیں اور پاکستان کا بہترین جغرافیہ اور موافق آب و ہوا اِس شعبے کے تیزرفتار ترقی کو ممکن بنا سکتی ہے لیکن اگر قومی و صوبائی فیصلہ اِس حوالے سے سوچتے ہوئے قومی مفاد کو مدنظر رکھیں۔ توجہ طلب ہے کہ زرعی شعبہ اور لائیوسٹاک کی ترقی سے ملک کے جملہ قرضہ جات کی باآسانی ادائیگی ممکن ہے اور اِس سے غذائی خودکفالت و خودانحصاری کے علاوہ روزگار بھی حاصل ہوگا جو معاشی اطمینان کیلئے ضروری ہے۔