رابعہ بانو کی بڑی اماں 

28سال قبل عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی صاحبہ کو ایک بن ماں باپ کی بچی ملی انہوں نے بے شمار دیگر بچوں اور بچیوں کی طرح اس کو اپنی بیٹی بنایا اس کی دیکھ بھال سکول کالج کی ذمہ داریاں سنبھالیں اس بچی کو ماں باپ کا پیاردیا اس کی ہر خواہش کو پورا کیا تعلیم کیلئے اس نے بیرون ملک جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجوایا ایدھی صاحب اور بلقیس  صاحبہ اس اور ان ہزاروں دوسرے بچوں کی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے مریضوں اور ضرورت مندوں کی خدمت کرتے رہے چند سال قبل ایدھی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور گزشتہ دنوں بلقیس ایدھی صاحبہ بھی انتقال کرگئیں انکے انتقال سے ایسا لگا جیسے بہت سے پاکستانیوں کی ماں فوت ہوگئی ہو نہ جانے کہاں کہاں وہ بچے کامیاب زندگی گزار رہے ہوں گے اور دونوں والدین کیلئے دعائیں کرتے ہونگے جن کی پرورش عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے کی ہے ان ہی بچوں میں سے اچانک28سال قبل ایدھی و ملنے والی بچی رابعہ کے مطابق وہ وہی28سال قبل ایدھی اور بلقیس کو ملنے والی بچی ہے۔
جس کا دونوں والدین نے اصل ماں باپ سے بھی زیادہ خیال رکھا اسکی ہر خواہش پوری کی رابعہ کے مطابق بلقیس صاحبہ نے ان کو اپنی والدہ کا نام دیا ان کو اپنی پہچان دی دوسروں کیلئے وہ بلقیس ایدھی تھیں لیکن رابعہ کے لئے وہ بڑی اماں تھیں جس نے اس کو نہ صرف اچھے سکول کالج اور یونیورسٹی بھیجا بلکہ اس کے ہر خواب کو پورا کیا اس کیلئے رستہ ہموار کیا کہ وہ آگے جاکر کچھ بن سکے رابعہ کے مطابق بلقیس صرف اسکی نہیں بلکہ بے شمار بچوں اور بچیوں کی والدہ تھیں جن کے اپنے والدین انتقال کرگئے تھے یا جنہوں نے ان بچوں کو کسی وجہ سے ایدھی کے جھولے میں ڈال دیا تھا رابعہ کے مطابق اس کو ساری عمر یہ فخر رہے گا کہ وہ عبدالستار ایدھی اور بلقیس کی بچی ہے رابعہ نے سوشل میڈیا پرجب بڑی اماں کے حوالے سے لکھا تو اس کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں لوگوں تک اسکی یہ آواز پہنچے گی اور ایدھی اور بلقیس کا مقام عام آدمی کی نظر میں مزید بڑھے گا۔
 یہ تو سب کو علم ہے کہ کس طرح ایدھی صاحب نے ایک قدم اٹھایا تھا  جو چند ہی سال میں پاکستان کے سب سے بڑے خیراتی ادارے کے طور پر مستحکم ہوگیا دوسرے فلاحی کاموں کے علاوہ ایدھی20ہزار سے زائد بچوں کے کفیل رہے بچوں کیلئے وہ  ابو اور بلقیس صاحبہ بڑی اماں تھیں ہفنگٹن پوسٹ نے ان کو2013 میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیا تھا جنہوں نے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں قدرتی آفات اور دیگر حادثات میں لوگوں کی مدد کیلئے ہیلی کاپٹر ایمبولینس اور رضاکار بھجوائے‘ پاکستان میں ادارے کے 300سے زائد فلاحی مراکز میں روزانہ ہزاروں افراد کی خدمت کی جارہی ہے ملک میں اس کے15سو سے زائد ایمبولینس کام کر رہی ہیں 2016ء میں ایدھی صاحب وفات ہوئے تو ایسا لگا کہ ہزاروں لوگ یتیم ہوگئے ہیں ان کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا ہے مگر بلقیس صاحبہ نے اسی جذبے سے کام جاری رکھا گزشتہ دنوں وہ بھی انتقال کرگئیں لاکھوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کو خراج تحسین پیش کیا رابعہ بانو عثمان  بھی ان میں سے ایک تھیں اور بھی ہزاروں بچے اور بچیاں ہوں گی جو اپنی فیلڈ میں کامیاب زندگی گزار رہی ہوں گی اور نہ صرف دعاؤں میں ایدھی اور بلقیس کو یاد رکھیں گے بلکہ ان کی شمع کو بجھنے نہیں دیں گے انسانیت کی خدمت کرنے والے لوگ ہی اسی طرح صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔