پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی اگلی قسط (ایک ارب ڈالر) حاصل کرنے کیلئے جو مذاکرات کئے ہیں اُن میں جن 2 بنیادی باتوں پر اتفاق کیا گیا ہے اگر اُن پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو اِس سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ معیشت کی بحالی کیلئے پاکستان کی جانب سے ”پہلا کڑوا گھونٹ“ ایندھن اور بجلی پر دی جانے والی رعایت (سبسڈی) واپس لینے کی صورت ہوگا جبکہ ”دوسرا کڑوا گھونٹ“ چھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے کاروباری طبقے کو دی گئی چھوٹ (بزنس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم) ختم کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب ٹیکسوں کی شرح بڑھے گی تو اِس کا بوجھ بھی صارفین (عوام) سے وصول کیا جائے گا اور عمومی و بنیادی اور خصوصی استعمال کی جملہ اشیا مہنگی ہو جائیں گی۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کی نئی لہر کتنی شدید ہوگی کہ ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی جس کی وجہ سے خام مال کی ترسیل اور بعدازاں اشیاء کی نقل و حمل پر اخراجات بڑھ جائیں گے اور دوسری طرف کاروباری طبقے پر ٹیکس عائد ہوگا تو ظاہر سی بات ہے کہ اِسے بھی اشیا ء اور اجناس پر ہی منتقل کیا جائے گا۔
ذہن نشین رہے کہ ’آئی ایم ایف‘ قرض دینے کے ساتھ اِس کی واپسی کیلئے اصلاحات و اقدامات کا بھی مطالبہ کرتا ہے تاکہ اِس کے قرض کی واپسی محفوظ اور ممکن ہو سکے اور ماضی کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ادارہ جاتی اصلاحات پر اتفاق کیا ہے یعنی ’ڈھانچہ جاتی اصلاحات‘ کو جاری رکھنے کا ”وعدہ“ کیا گیا ہے‘ جن سے سرکاری اداروں کا خسارہ‘ بجلی و گیس کے ترسیلی نظام میں خرابیاں دور کرنے‘ گردشی قرض میں کمی‘ سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے اور انسداد بدعنوانی (کرپشن) وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ’آئی ایم ایف‘ سے ”نئے وعدوں“ کی روشنی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس سے بیس روپے فی لیٹر اور بجلی کے نرخوں میں پانچ روپے فی یونٹ اضافہ کرنے کے بعد ’آئی ایم ایف‘ قرض کی قسط یعنی ایک ارب ڈالر جاری کرے گا۔
’آئی ایم ایف‘ نے ’سال دوہزار نو‘ کے دوران پاکستان کے لئے تین سال کی مدت کے دوران چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی لیکن پاکستان کی جانب سے حسب وعدہ اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے قرض روک دیا گیا تھا‘ جسے بحال کرنے کیلئے نئی وفاقی حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔نئی مخلوط حکومت‘ جسے غیر معمولی ”میکرو اکنامک بحران“ ورثے میں ملے ہیں کو ملک کے معاشی اشارئیے مستحکم کرنے اور ملکی و بین الاقوامی معاشی ترجیحات کے درمیان توازن قائم کرنے کا بوجھ کسی بھی صورت غریب اور کمزور طبقات پر نہیں ڈالنا چاہئے جبکہ ایسے طبقات کو پہلے سے زیادہ معاشی تحفظ کی ضرورت ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت معاشی بحران سے وقتی طور پر نکلنے یعنی معاشی عدم توازن دور کرنے کے لئے آسان فیصلے کرنے جا رہی ہے لیکن حکومتی کارکردگی کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کی دوسری ترجیح اُس کی اپنی سیاسی ساکھ ا؎ور ”ووٹ بینک“ بچانا بھی ہوتا ہے اور موجودہ صورتحال میں صرف مسلم لیگ نواز ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کو دوہرے چیلنجوں کا سامنا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف حکومت ختم کرنے کے بعد حزب اختلاف پہلے سے زیادہ مشکل میں پھنس گئی ہے۔ اس وقت حکومت کو پنی مختصر دورانیے کے احساس اور نئے انتخابات سے قبل فوری طور پر کم از کم معاشی ایجنڈے پر اتحادی سیاسی جماعتوں (شراکت داروں) کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
تعجب خیز نہیں کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر ”میکرو اکنامک بحران“ سے گزر رہا ہے کیونکہ ہمارے ہاں سیاست کو معیشت پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اِس بات (تصور) کو سمجھنے کیلئے وزارت ِخزانہ کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جو رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے پہلے آٹھ ماہ سے متعلق ہیں۔ اِس مذکورہ عرصے (آٹھ ماہ) میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بارہ ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور توقع ہے کہ مالی سال کے باقی ماندہ چار ماہ (اختتام) تک جاری اخراجات کا خسارہ بیس ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوگا کہ بلکہ مالی سال دوہزارسترہ اٹھارہ کے اختتام پر بھی جاری اخراجات کا خسارہ اُنیس ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (ادارہئ شماریات) اور سٹیٹ بینک آف پاکستان (مرکزی مالیاتی ادارے) کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال دوہزاربائیس کے پہلے نو ماہ کے دوران تجارتی خسارہ بڑھ کر ساڑھے پینتیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
یہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے 170فیصد زیادہ ہے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قرضوں کی ادائیگی موجودہ سال کے لئے ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جو آٹھ اپریل کے روز قریب گیارہ ارب ڈالر (10.8 ارب ڈالر) کے لگ بھگ ہیں یعنی پاکستان کو دس ارب ڈالر میں سے ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں! ظاہر ہے کہ اِسی صورتحال کی وجہ سے پاکستانی روپے پر بھی دباؤ برقرار ہے اور ایک ڈالر 181 تک جا پہنچا ہے جو ایک وقت میں 189 کو چھو کر واپس آیا ہے جو ملکی تاریخ میں روپے کی سب سے زیادہ ناقدری ہے۔
حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی (افراط زر) پر قابو پانا ہے جس کی شرح تیرہ فیصد ہے اور یہ گزشتہ دو برس کے دوران بلند شرح ہے۔متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے بنیادی ضرورت کی اشیائے خوردونوش خریدنے کی قوت بھی رفتہ رفتہ کھو رہے ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق رمضان المبارک کے آغاز پر انتہائی ضرورت کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں قریب اٹھارہ (17.87) فیصد اضافہ ہوا ہے! اس افراط زر کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا ”نام نہاد متوسط طبقے“ کا معیار زندگی تیزی سے خراب ہوتا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں بہت سے لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہے اور یہی مناسب وقت ہے کہ سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جملہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے بات چیت کی جائے۔