پاک افغان سرحد 

پاک افغان سرحد کے حوالہ سے بحث ہر دو ر میں ہوتی رہی ہے افغا ن حکمرانوں اورخود ہمارے ہاں قوم پرستوں نے اس عالمی سرحد کو متنازعہ بنائے رکھنے کی کوشش کی جب پاکستان نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دی تو سابق افغان صدرحامد کرزئی نے بیان داغا کہ ہم یہ فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ڈیورنڈلائن ایک متنازعہ لکیرہے کم وبیش اسی طرح کے خیالات طالبان بھی رکھتے ہیں تاہم خود افغانستان کے اندر سے بھی ماضی میں مختلف مؤقف بھی سامنے آتارہاہے خیبر پختونخوا کے سابق گورنر اقبال ظفرجھگڑا نے جب اپنے دور میں ایک وفد کے ہمراہ افغانستان کے شمالی صوبہ بلخ کے گورنر کی دعوت پر جشن نوروز میں شرکت کے لیے افغانستان کا دورہ کیا تو اس موقع پر بلخ کے گورنر نے ڈیورنڈلائن کو دونوں ملکو ں کے درمیان مستقل عالمی سرحدتسلیم کرتے ہوئے تعلقات کی بہتر ی پر زوردیا تھا  صوبہ بلخ کے غیر پختون گورنر نے ڈیورنڈ لائن ایشو کو مردہ گھوڑا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ کب کا ختم ہوچکاہے اب دونوں ملکوں کو ملکر تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامز ن ہونا ہوگا صوبہ بلخ کے گورنر استاد عطاء محمد نوری،جن کا تعلق برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعودکی جمعیت اسلامی کے ساتھ رہاہے،نے جشن نوروزکے سلسلے میں اپنی خصوصی دعو ت پر بلخ آئے ہوئے گورنر خیبر پختونخوااقبا ل ظفرجھگڑا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے واضح طورپر کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن اب ایک حقیقت بن چکی ہے ماضی میں اٹھنے والا یہ مسئلہ اب ختم ہوچکاہے اور دونوں ممالک کاامن ایک دوسرے کے امن کے ساتھ وابستہ ہے انہوں نے یہ بھی واضح کیاکہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات ہماری ضرورت بھی ہیں کیونکہ پاکستان کے بغیر ہمار اگذارہ ممکن نہیں ا سی طرح افغانستان کی سابق پارلیمنٹ کے ایک رکن عبد الطیف پدرم نے کچھ عرصہ قبل بھی ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے دونوں ملکو ں کو اس سرحد کااحترام کرناچاہئے ساتھ ہی انکا یہ بھی کہنا تھاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں دلچسپ امریہ ہے کہ انکا تعلق بھی شمالی صوبوں میں سے ایک صوبہ بدخشاں سے تھا، اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ افغانستان میں رائے عامہ اب تیز ی سے تبدیل ہورہی ہے ظاہر ہے کہ اگر ہمارے ہاں روایتی اور سوشل میڈیا کے آنے سے سوچ کی تبدیلی کی رفتار تیزہوئی ہے تو افغانستان میں آج سوچ کی تبدیلی کے اسی مرحلے سے گذررہاہے اب افغان عوام کا انحصار صرف حکومتی میڈیا پرنہیں رہا اب نسبتاًآزادمیڈیا سامنے آچکاہے جس نے حالات میں تبدیلی کی راہ ہموارکردی ہے اگر دیکھاجائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان نے شروع سے ہی ڈیورنڈ لائن کوپاک افغان سرحد دل سے تسلیم نہیں کیا اسی لیے وقتاًفوقتاً اس ایشو کوچھیڑا جاتارہتاہے دلچسپ امریہ ہے کہ جب تک یہاں انگریز راج تھا تب تک تو افغان حکومتیں خاموش رہیں مگر جب1947ء میں پاکستان قائم ہواتو غالباً یہ سوچ کر کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکار کی رٹ لگانی شروع کر دی اور اس کا یہی رویہ بعدازاں سرحدی جھڑپوں کی وجہ
 بھی بن گیا۔پاک افغان سرحدی جھڑپوں کی تاریخ 73 سالوں پر محیط ہے1949ء میں پہلی سرحدی جھڑپ ہوئی تھی بعدازاں وقتاً فوقتاً یہ سلسلہ جاری رہا حالیہ سرحدی جھڑپوں کی ابتداء 2003ء کے وسط میں ہوئی تھی جب افغانستان نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان نے نورستان اور کنڑ کے علاقوں میں میزائل حملے کئے ہیں جن سے شہری آبادی کو نقصان پہنچا ہے تاہم پاکستان نے اس کی واضح تردید کی مگر اس کے باوجودافغانستان کی طر ف سے درانداز ی کاسلسلہ جاری رہا اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو مغلوں کے زوال کے بعد جب ہندوستان پہ انگریز اپنا قبضہ مستحکم کرتے چلے گئے تو ہندوستان کی مغربی
 اور شمال مغربی سرحدوں کی حد بندی کا مسئلہ بار بار سامنے آتا رہا انگریزوں نے اس دوران افغانستان پر کئی حملے بھی کئے درحقیقت اس وقت کی انگریز حکومت زارروس کے توسیع پسندانہ عزائم سے خائف تھی اور اس کو خوف تھا کہ کہیں روس گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش میں ہندوستان کا رخ نہ کرلے یہی وجہ ہے کہ اس نے افغانستان میں مہم جوئی کا سلسلہ شروع کردیا تاکہ زارکی فوج کو دریائے آمو کے اس پار ہی روکے رکھا جا سکے تاہم جب یہ مہم جوئی کامیاب نہ ہو سکی تو1893ء میں انگریزوں نے مذاکرات کے ذریعے افغانستان اور ہندوستان کے درمیان سرحدی حد بندی کا فیصلہ کرلیا جس کے بعد برطانوی ہند سرکار کی طرف سے سرمارٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کی طرف سے امیر عبدالرحمان خان نے 1893ء میں معاہدہ پر دستخط کردیئے جس کے تحت اگلے سال دونوں ممالک کے درمیان حد بندی کا کام شروع ہوا یہ کام دو سال تک جاری رہا اور آخر
 کار2640 کلومیٹر طویل سرحد کی نشاندہی مکمل ہوگئی یہ سرحد بعدازاں ڈیورنڈلائن کہلائی اس سرحد کی بدولت گریٹ گیم کے دوران افغانستان نے روس اور برطانیہ کے درمیان بفر زون کا کردار ادا کیا اور یوں دونوں بڑی طاقتیں براہ راست آمنے سامنے آنے اور ٹکراؤ سے بچ گئیں بعدازاں 18اگست1919ء کو راولپنڈی میں اینگلوافغان ٹریٹی پر دستخط ہوئے جس کے تحت ڈیورنڈلائن کو مستقل سرحد تسلیم کرلیاگیا جب پاکستان بنا تو برطانوی ہند کے دونوں مذکورہ بالا معاہدے وراثت کے طور پر اس کے حصے میں آئے اور پاکستان نے روزاول سے ان معاہدوں کے احترام کا اعلان کیا تاہم افغانستان نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی ان معاہدوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا رویہ اپنا لیا جس نے بعدازاں آگے جا کر کشیدگی کی ایسی بنیاد ڈالی جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا سکتے ہیں قیام پاکستان کے بعد سے افغان حکومتوں نے وقتاً فوقتاً ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد ماننے سے انکار پر مبنی موقف اختیار کئے رکھا قیام پاکستان کے فوراً بعد26جولائی 1949ء کو جبکہ دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کا شکار تھے افغانستان میں ایک لویہ جرگہ منعقد ہوا اس کے ذریعے افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو سرحدی لکیر ماننے سے انکار کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کے حوالہ سے ماضی کے تمام معاہدوں کو غیر قانونی قرار دیا افغان حکومت نے اسے لسانی تقسیم کی لکیر قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ لکیر دباؤ کے تحت کھینچی گئی تھی تاہم دنیا نے افغانستان کے اس موقف کو پذیرائی نہیں بخشی 30 جون 1950ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے واضح طور پر کہا کہ ڈیورنڈ لائن ایک عالمی سرحد ہے اور پاکستان ان تمام علاقوں کا قانونی وارث ہے جو شمال مغرب میں برطانوی ہند کا حصہ تھے اس طرح8 مارچ 1956ء کو سیٹو نے بھی پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے کراچی میں اپنے اجلاس میں کہا کہ ان کی حکومتیں ڈیورنڈ لائن کے اس پار تمام علاقوں پر پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتی ہیں اور قرار دیتی ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان عالمی سرحد ہے واضح رہے کہ سیٹو میں امریکہ‘ برطانیہ اورفرانس کے علاوہ پاکستان‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ فلپائن اور تھائی لینڈ شامل تھے یوں آغاز میں ہی عالمی برادری نے افغانستان کے موقف کو مسترد کر دیا تاہم افغان حکمرانوں کے دل میں یہ بات بیٹھی رہی اور وقتاً فوقتاً اس حوالے سے آج بھی وہ اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں بعض تجزیہ کاروں کے بقول غالباً یہی وجہ ہے کہ افغانستان آج دراندازوں کو کنٹرول نہیں کر رہاپاک افغان سرحد کو ہمارے خیا ل میں اب ڈیورنڈ لائن کے استعمار ی نام سے پکارنے کا سلسلہ بھی ختم کرنا ہوگا کیونکہ اس نام سے تقسیم اورتفریق کی بو آتی ہے ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ایک ہی ملک کو دوحصوں کی منقسم کرنے کیلئے یہ لکیر کھینچی گئی ہو اب وقت آگیاہے کہ حکومت سرکار ی طورپر اس حوالے سے ہدایات جاری کرے کہ آئندہ سے اس کو پاک افغان بارڈر ہی کہا،لکھا اورپکارا جائے اور اس کے سامراجی نام پر پابندی لگا دی جائے اس طرح کھل کران عناصر کی نشاندہی ہوسکے گی جو اس ایشوکو ہر صورت زندہ رکھنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔