ٹوئیٹر (twitter) اکیس مارچ 2006ء میں ایجاد ہوا جبکہ تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد اِسے عام صارفین کیلئے ’نومبر 2013ء‘ میں پیش کیا گیا تب (ابتدائی دنوں میں) ٹوئیٹر صارفین کی تعداد 20 کروڑ تھی لیکن جلد ہی اِس کا نام دنیا کی 3 سرفہرست سوشل میڈیا وسائل (ایپس) میں شامل ہوگیا جس کے صارفین کی موجودہ تعداد 40 کروڑ تاہم اِن میں فعال صارفین 20 کروڑ سے زیادہ ہیں۔ سال 2020ء میں اِس کی مجموعی سالانہ آمدنی 3.72 ارب ڈالر رہی جسے بڑھانے کیلئے ”ٹوئیٹر سپیس“ نامی نئی سہولت (فیچر) ’3 مئی 2021ء‘ سے متعارف کروائی گئی جس سے پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے تحریک انصاف کی طرح استعمال (استفادہ) نہیں کیا۔ اِس سہولت سے کوئی بھی ٹوئیٹر صارف ٹیلی ویژن کی براہ راست نشریات جیسا صوتی (آڈیو) اور ویڈیو رابطہ (ٹرانسمیشن) کر سکتا ہے جسے ٹوئیٹر صارفین شامل ہو کر سن سکتے ہیں اور اِس سہولت کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس طرح سے خطاب پہلے سے محفوظ (ریکارڈ) شدہ نہیں ہوتا بلکہ صرف براہ راست مواد ہی نشر ہو سکتا ہے اور یہی اِسے زیادہ خاص سہولت بناتی ہے۔ ’ٹوئیٹرسپیس‘ نامی سہولت (فیچر) کا تجرباتی استعمال نومبر 2020ء سے شروع ہوا تاہم ابتدأ میں یہ محدود صارفین کیلئے دستیاب تھا جسے بعدازاں عام کر دیا گیا اور اب کوئی بھی ٹوئیٹر صارف جس کے 600 یا اِس سے زیادہ صارفین (فالوورز) ہوں وہ ’ٹوئیٹر سپیس‘ کی سہولت سے بلاقیمت (مفت) استفادہ کر سکتا ہے۔ ٹوئیٹر کا ہدف ہے کہ سال 2023ء تک اُس کے یومیہ فعال (ایکٹو) صارفین کی تعداد ساڑھے اکتیس کروڑ سے تجاوز کر جائے۔ ’ٹوئیٹر سپیس‘ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس کی نشریات (بات چیت) یک طرفہ نہیں ہوتی کہ کوئی شخص بس براہ راست اپنا خطاب کرتا چلا جائے یعنی بولتا (اظہار خیال کرتا) چلا جائے بلکہ کوئی بھی صارف جب چاہے بات چیت میں حصہ لے سکتا ہے اور بیک وقت کئی صارف سوال و جواب (تبادلہئ خیال) بھی کر سکتے ہیں۔ ٹوئیٹر سے قبل اِس تصور (idea) کے ساتھ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسا کہ فیس بک‘ سپوٹیفائی وغیرہ سامنے آ چکے تھے تاہم ’ٹوئیٹر‘ نے رابطہ کاری کی جدید‘ تیزرفتار اور ترقی یافتہ شکل کے تجرباتی مراحل زیادہ تیزی سے مکمل کئے جس کا مطلب
ہے کہ دیگر ہم عصروں کی نسبت ٹوئیٹر کے فیصلہ سازوں نے وقت‘ تکنیکی سہولیات اور مالی وسائل سے زیادہ سرمایہ کاری کی اور یہی وجہ ہے کہ ’ٹوئیٹر سپیس‘ کا پہلا سال مکمل ہونے میں ابھی سات دن (ایک ہفتہ) باقی ہے لیکن اِس سہولت سے ہر روز کروڑوں افراد فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جس نے سوشل میڈیا کے اسلوب‘ تاثیر اور بیانئے کو نیا تعارف اور نئی بلندی دی ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ ’ٹوئیٹر سپیس‘ آمدنی کا ذریعہ بھی ہے تاہم کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے آمدنی سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور ہم خیال طبقے سے رابطے میں رہے‘ اپنا پیغام پہنچائے اور عوام کو اپنی حمایت جاری رکھنے یا حمایت کرنے کیلئے دلائل سے قائل (قابو) کرتی رہے اور یہ اہداف سوشل میڈیا وسائل کے ذریعے ’تحریک انصاف‘ (دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت) زیادہ مہارت و خوش اسلوبی سے حاصل کر رہی ہے یقینا ’تحریک انصاف‘ نے گزشتہ چار سال کے حکومتی دور میں اگر کوئی ایک کام پوری توجہ (اِنہماک) سے کیا ہے تو وہ ’سوشل میڈیا کا منظم و مربوط‘ استعمال ہے اور اِس کا مقابلہ کوئی دوسری ہم عصر سیاسی جماعت نہیں کر پا رہی جس کی ایک وجہ یہ بھی تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان مارچ 2010ء سے ٹوئیٹر صارف ہیں‘ انہوں نے @ImranKhanPTI کے اکاؤنٹ سے مجموعی طور پر ’ساڑھے سات ہزار‘ پیغامات جاری کئے ہیں اور کم پیغامات کے باوجود پاکستان سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹوئیٹر‘ کی مقبول ترین شخصیت ہیں اور اِن کے ہر سوشل میڈیا پیغام (پوسٹ) کو جاننے کیلئے بیتاب رہنے والے ’فالوورز‘ کی تعداد ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ (سولہ اعشاریہ پانچ ملین) سے زیادہ ہے۔گزشتہ روز انہوں نے ٹوئٹر سپیس کا استعمال
کرکے اس حوالے سے سبقت حاصل کی کہ وہ پہلے پاکستانی سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے اس کا استعمال کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز جنوری 2012ء سے ٹوئیٹر استعمال کر رہی ہیں انہوں نے @MaryamNSharif کے اکاؤنٹ سے مجموعی طور پر 65 ہزار پیغامات جاری کئے ہیں اور اِن کے فالوورز کی تعداد ساڑھے 70لاکھ (7ملین) سے زیادہ ہے۔ نواز لیگ کے دوسرے اہم رہنما (وزیراعظم) شہباز شریف اپریل 2010ء سے ٹوئیٹر صارف ہیں اور انہوں نے @CMShehbaz کے اکاؤنٹ سے کل 7 ہزار 459 پیغامات جاری کئے ہیں جبکہ اِن کے فالوورز کی تعداد 58 لاکھ (5.8 ملین) ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جولائی 2011ء سے ٹوئیٹر استعمال کر رہے ہیں اور @BBhuttoZardari کے اکاؤنٹ سے اِن کے کل فالوورز کی تعداد 46 لاکھ (4.6 ملین) تحریک انصاف کے رہنما چوہدری فواد حسین کے 51 لاکھ فالوورز سے کم ہے! سیاسی رہنما سوشل میڈیا کی دنیا میں بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کیلئے جتن کرتے رہتے ہیں اور اِس مقصد کیلئے ہر سیاسی جماعت نے ’سوشل میڈیا‘ پر فعال کارکنوں کو الگ سے شناخت کرنے اور اُنہیں منظم کرنے کیلئے اقدامات و انتظامات کر رکھے ہیں جن میں بالترتیب تحریک انصاف‘ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سرفہرست ہیں۔ رابطہ عوام مہمات کیلئے ’سوشل میڈیا‘ کا استعمال جہاں کم خرچ بالانشین ہے وہیں یہ ’ماحول دوست‘ طرزعمل بھی ہے کہ اِس قسم کی رابطہ کاری میں کسی شہر کا ٹریفک نظام درہم برہم نہیں ہوتا۔ درخت سبزہ زار اور سرکاری خرچ سے تعمیرات کو نقصان نہیں پہنچتا۔ غیرمتعلقہ افراد کے معمولات متاثر نہیں ہوتے اور بالخصوص ’کورونا وبا‘ کہ جس کے پھیلنے کی شرح موسم گرما کی وجہ سے اگرچہ کم ہوئی ہے لیکن یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے تو بہتری اِسی میں ہے کہ عوامی اجتماعات (بھیڑ بھاڑ) جمع کرنے سے گریز کیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی بصیرت کے ساتھ تدبیر و تدبر سے کام لیتے ہوئے ہماری سیاسی جماعتیں جدید دور کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے بھر پور استفادہ کرتی ہیں یا نہیں۔