کاشت کاروں کے جائز مطالبات

کسان بورڈ پاکستان کی مرکزی کونسل نے صوبے کے کسانوں کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں عید الفطرکے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔کسان تنظیم کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ ملک میں زراعت کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے لوگ زراعت کو چھوڑ کر دوسرے پیشوں کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ کاشتکاری اب نفع بخش پیشہ نہیں رہا۔ڈی اے پی کیمیاوی کھادکی بوری دس ہزار روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور یوریا کی بلیک مارکیٹنگ بھی جاری ہے۔ناقص بیج اور جعلی زرعی ادویات کی بھرمارکے باعث فصلوں پر انتہائی خراب اثرات پڑرہے ہیں۔انہوں نے بیج،کھاد اور زرعی ادویات 27 فی صد ٹیکس کو بد ترین ظلم قرار دیتے ہوئے ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ زراعت کو ٹیکس فری شعبہ بنانے سے ہی کسان اطمینان سے محنت کرکے ملک کو زرعی پیدوار میں خود کفیل بناسکتے ہیں۔کسان بورڈ کا کہنا ہے کہ  حالیہ سیزن میں شوگر ملز مالکان نے گنے کی بہت کم قیمت لگا کر کاشتکاروں کا بدترین استحصال کیابعض شوگر ملوں کے ذمے ابھی تک کسانوں کے اربوں روپے واجب ا لادا ہیں انہوں نے تمباکو کمپنیوں اور شوگر ملز مالکان سے کاشتکاروں کے اربوں روپے فوری طور پر دلانے کا مطالبہ کیا۔کہتے ہیں کہ بچہ جب تک روئے گا نہیں، ماں بھی اسے دودھ نہیں پلاتی۔ یہی حال حکومت کا ہے۔ جائز شکایات کے ازالے کیلئے بھی احتجاج، ہڑتال، لانگ مارچ اور دھرنے کی دھمکیاں دینی پڑتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود
 گندم،دالیں، خوردنی تیل،بناسپتی گھی اور دیگر زرعی اجناس درآمد کرتا ہے جس پر اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔اگر حکومت کاشت کاروں کو مناسب سہولیات فراہم کرے تو ملک کو زرعی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل بنایاجاسکتا ہے۔اس کیلئے مڈل مین کے کردار کو ختم کرنا ہوگا یہی مڈل مین کاشت کاروں سے گنا، گندم اور دیگر زرعی اجناس اونے پونے داموں خریدتے ہیں اور مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں اور فائدہ کسانوں اور کاشت کاروں کے بجائے مڈل مینوں، کارخانے داروں اور صنعت کاروں کی جیبوں میں چلاجاتا ہے۔ قدرت نے ہمارے ملک کو زرخیز زمین، وافر آبی ذخائر، موافق موسم اور جفاکش افرادی قوت سے نوازا ہے اس کے باوجود ہم زرعی اجناس دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے پر مجبورہیں۔جتنی
 کیش رقم، زرضمانت، سود اور کمیشن زرعی اجناس کی درآمد پر خرچ ہوتی ہے وہی رقم اگر زرعی پیداوار بڑھانے، کسانوں کو رعایتی قیمتوں پر بیج، کھاد اور زرعی ادویات فراہم کرنے پر خرچ کی جائے تو ہم زرعی پیداوار میں خود کفالت کی منزل پاسکتے ہیں۔ زرعی شعبے کی ترقی آج تک کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ لاکھوں کروڑوں ایکڑ کی اراضی بنجر پڑی ہے جبکہ ہمارے دریاؤں کا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہورہا ہے لیکن 60کی دہائی کے بعد گذشتہ پچاس سالوں سے کوئی بڑے آبی ذخائر تعمیر کئے گئے نہ ہی بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی گئی۔زراعت وہ شعبہ ہے جس سے ملک کی دیہی آبادی کے 80فیصد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہی طبقہ ملک کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو کاشت کاروں، کسانوں اور زمینداروں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرکے انہیں حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔