وزیر اعظم شہباز شریف نے لوڈ شیڈنگ کو اگلے مہینے سے یکسر ختم کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں، جو حالات میں بہتری کی نوید ہے تاہم اس وقت تو پاکستان کے طول و عرض میں موسمیاتی درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ”توانائی کا بحران“ بڑھ رہا ہے اور لمحہئ فکریہ یہ ہے کہ …… ”ابھی تو گرمی شروع ہوئی ہے!“ رواں ہفتے کے آغاز پر ایک دن میں بجلی کی کمی 7468 میگاواٹ جیسی بلند سطح تک جا پہنچی‘ جس کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں دس سے اٹھارہ گھنٹے جیسا طویل برقی تعطل (لوڈ شیڈنگ)‘ کرنا پڑا اور اِس سے معمولات ِزندگی و کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہیں۔ اِس موقع پر فیصلہ سازوں کی جانب سے بجلی گھروں کی بندش کا باعث ایندھن کی قلت بتائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے اور یہ ایک تکنیکی وجوہ (سبب) ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں بجلی کی یومیہ کل پیداوار اٹھارہ ہزار اکتیس میگاواٹ ہے جبکہ بجلی کی طلب قریب ساڑھے پچیس ہزار میگاواٹ ہے۔ ملک میں پن بجلی سے 3674میگاواٹ‘ سرکاری تھرمل پاور پلانٹس سے 786میگاواٹ جبکہ نجی بجلی گھروں سے 9526میگاواٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے۔ اِسی طرح ہوا کی طاقت (ونڈ پاور) سے بجلی گھروں (پاور پلانٹس) سے 487میگاواٹ‘ شمسی توانائی (سولر) سے 104میگاواٹ‘ بائیو گیس سے 141میگاواٹ اور جوہری توانائی (اٹامک پاور پلانٹس) سے 3312میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
عام آدمی کے نکتہئ نظر سے رمضان المبارک کے دوران بالخصوص سحری و افطار اور تراویح کے اوقات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بالکل نہیں ہونی چاہئے اور اِس سلسلے میں ہر سال باقاعدہ اعلانات بھی کئے جاتے ہیں جس سے عوامی توقعات کا معیار ایک درجہ بلند ہوا ہے۔ رمضان المبارک کے پہلے دو عشرے بالخصوص ابتدائی پندرہ ایام قدرے سہولت سے گزرے جن میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ قابل برداشت اور باسہولت رہا لیکن اچانک شروع ہونے والی لوڈشیڈنگ کی وجہ ایندھن کی کمی یا قلت عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر رمضان کے ابتدائی پندرہ دنوں میں ایندھن موجود تھا تو یہ اچانک‘ کیسے اور کیونکر ختم ہو سکتا ہے!؟ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں بجلی کی ترسیل ’مرکزی نظام‘ سے منسلک ہے اور یہ ’نیشنل گرڈ‘ سے فراہم ہوتی ہے جہاں سے کم سپلائی کی وجہ سے مختلف گرڈز پر لوڈ مینجمنٹ کی جاتی ہے اور یہ عموماً کم از کم چار گھنٹے کی بندش کی صورت ہوتی ہے لیکن شہری علاقوں میں کم اور دیہی علاقوں میں زیادہ طویل دورانئے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ پاور ڈویژن حکام کے مطابق شہری مراکز میں لوگ روزانہ دس گھنٹے تک اور دیہی علاقوں میں اٹھارہ گھنٹے تک صارفین بجلی کی بندش برداشت کر رہے ہیں، تاہم کچھ حلقوں کا موقف ہے کہ پاکستان کو صرف بجلی نہیں بلکہ سستی بجلی چاہئے اور سستی بجلی کے حصول کیلئے نجی بجلی گھروں سے کئے گئے حکومتی معاہدوں پر نظرثانی ضروری ہے۔
کیونکہ کہا جاتاہے کہ جن نجی بجلی گھروں سے معاہدے کئے گئے اُن سے قومی خزانے کو ماہانہ 100 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور خاطرخواہ پیداواری اہلیت و صلاحیت نہ رکھنے والے نجی بجلی گھروں سے معاہدوں کی وجہ سے ’لوڈ شیڈنگ‘ بھی کرنا پڑ رہی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام صرف توانائی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر شعبوں بالخصوص معیشت میں بحران کا باعث بن رہا ہے۔ اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ صرف ”روزہ دار“ گھریلو صارفین کیلئے پریشانی کا باعث نہیں بلکہ یہ معیشت کے لئے بھی شدید دھچکا ہے اور اِس سے قومی شرح نمو پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر کپڑوں کی بروقت سلائی اور تجارتی مراکز میں خریداری جیسے امور متاثر ہیں۔ کورونا وبا سے متاثرہ معیشت جو پہلے ہی بحالی کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور اب اِسے بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسے امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے تو فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کس طرح پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں اور اِنہیں کس طرح پاکستان کی مدد کرنی چاہئے کہ سستے داموں کی بجلی کی ہمہ وقت دستیابی ممکن بنائی جا سکے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ سلائی کڑھائی کے مراکز سے صارفین کے گلے شکوے‘ تکرار اور لڑائی جھگڑے جبکہ تاجروں اور دکانداروں کی فریاد پر کان نہیں دھرا جا رہا۔ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ بجلی کی دائمی لوڈشیڈنگ کا وہ دائمی (پائیدار) حل تلاش کیا جائے۔جس طرح وزیراعظم نے ہدایات جاری کی ہیں اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے ٹائم فریم ترتیب دے چکے ہیں اس سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ مستقبل قریب میں لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا پانے میں کامیابی مل سکتی ہے اور اس سے ملکی صنعت کو فروغ دینے کا ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔