خیبر پختونخوا حکومت نے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ذہین طلباء و طالبات کو صوبے کے بہترین تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سرکاری خرچ پر صوبہ بھر اور قبائلی اضلاع سے 253طلبہ کا انتخاب کیاجائے گا۔ان میں 120طالبات بھی شامل ہیں صوبے کے بندوبستی علاقوں سے 200اور قبائلی اضلاع سے 53طلبہ کو مفت تعلیم دلوائی جائیگی سکالرشپ کے مستحق طلبہ کا انتخاب ایٹاٹیسٹ کے ذریعے ہوگا ٗان طلبہ کواعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں میں جماعت ہفتم میں داخلہ دلوایا جائیگا اور ایف ایس سی تک ان طلبا کے تمام تعلیمی اخراجات صوبائی حکومت برداشت کریگی ان طلبہ سے تحریری امتحان پشاور ٗ مردان ٗ سوات ٗایبٹ آباد ٗکوہاٹ ٗ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں لیا جائیگا ٗصوبائی حکومت نے ہونہار طلبا کو مفت تعلیم دلانے کیلئے صوبے کے 9معیاری تعلیمی اداروں کا انتخاب کیا ہے جن میں یونیورسٹی پبلک سکول پشاور ٗ اسلامیہ کالجیٹ سکول ٗ پشاور پبلک سکول پشاور،فضل حق کالج مردان ٗ بنوں ماڈل سکول اینڈ کالج بنوں ٗ مفتی محمود سکول اینڈ کالج ڈی آئی خان ٗ ایبٹ آباد پبلک سکول ٗ یونیورسٹی ماڈل سکول پشاور اور ایگریکلچر یونیورسٹی پبلک سکول اینڈ کالج شامل ہیں۔
یونیورسٹی پبلک سکول پشاور ٗ اسلامیہ کالجیٹ سکول اور پشاور پبلک سکول میں بیس بیس ٗفضل حق کالج مردان84 ٗ بنوں ماڈل سکول اینڈ کالج بنوں 14ٗ مفتی محمود سکول اینڈ کالج ڈی آئی خان 22 ٗ ایبٹ آباد پبلک سکول ایبٹ آباد 20 ٗ یونیورسٹی ماڈل سکول پشاور5 اور ایگریکلچر یونیورسٹی پبلک سکول اینڈ کالج میں 48طلبہ کو داخل کرایا جائیگا۔صوبائی حکومت کی طرف سے نادار اور ذہین طلبا و طالبات کو معیاری تعلیمی اداروں میں سرکاری سکالرشپ پر تعلیم دلانا بلاشبہ قابل ستائش قدم ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ اس تلخ حقیقت کا بھی خاموش اعتراف ہے کہ سرکار کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کا معیار اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی وزیر، مشیر، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی،اعلیٰ افسران اور سرکاری اساتذہ بھی اپنے بچوں کوگورنمنٹ سکولوں میں داخل کرنے کے روادار نہیں۔
جب تک سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں اور اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں آتے اس وقت تک سرکاری سکولوں کا معیار بہتر ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ جب حکمران اور اعلیٰ افسران اپنے طرز عمل کے ذریعے خود اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں سرکاری سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب اور معیار تعلیم پر اعتمادنہیں ہے تو پھر وہ سرکاری سکولوں کا معیار بہتر بنانے پر کیوں توجہ نہیں دیتے۔ بہتر ہوگا کہ حکومت سرکاری سکولوں کو بھی صحت مراکز کی طرح جوائنٹ وینچر کے ذریعے چلانے کا لائحہ عمل تیار کرے۔سکولوں کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔کچھ عرصہ قبل صوبے کے چند بڑے تعلیمی اداروں کو ماڈل اور انگلش میڈیم کا درجہ دیاگیا تھا۔ مگر یہ انگلش میڈیم سکول بھی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
گزشتہ دس سالوں میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات کے نتائج پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی بورڈکے ٹاپ ٹونٹی پوزیشن ہولڈرز میں سرکاری سکولوں کے طلبا یاطالبات کا نام نہیں ہوتا۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جب حکومت نجی تعلیمی اداروں کے معیاراور نظم و ضبط کا اعتراف کرتی ہے توقوم کے بچوں کو معیار تعلیم کی فراہمی پر ان نجی تعلیمی اداروں کی سرپرستی اور مالی امداد بھی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے انفراسٹرکچر اور معیار کو مزید بہتر بناسکیں۔کسی قوم کا تعلیمی معیار ہی اس کی ترقی کی ضمانت ہے۔سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کی تدریس میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کو اسباق رٹائے جاتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں عملی اقدامات کے ذریعے بچوں کو سبق سمجھایاجاتا ہے یہی طریقہ تدریس اگر سرکاری سکولوں میں بھی رائج کیاجائے تو ان کا معیار بھی بہتر ہوسکتا ہے۔