مفت علاج 

جرمن حکومت کے تعاون سے سال 2015ء میں مستحق طبقات کو ’علاج‘ کیلئے تجرباتی بنیادوں پر مالی امداد کی فراہمی کا سلسلہ خیبرپختونخوا کے 4 اضلاع سے شروع ہوا جسے اصطلاحاً ’سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انشی ایٹو (SHPI)‘ کا نام دیا گیا اور اِس حکمت عملی کو نومبر 2020ء میں صوبے کے سبھی اضلاع میں مرحلہ وار لاگو کر دیا گیا اور اب اِس حکمت عملی کے تحت خیبرپختونخوا کے کل 77 لاکھ سے زائد (7.79 ملین) خاندان مستفید ہو رہے ہیں۔ مقررہ علاج گاہوں سے علاج معالجے کی اِن سہولیات بارے اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں جن کے مطابق مذکورہ عرصے میں کل 8 لاکھ 19 ہزار 986 مریضوں نے مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اُٹھایا تاہم اِس میں خواتین مریضوں کی تعداد مردوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ سامنے آئی ہے۔
 اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی قریب 53 فیصد خواتین جبکہ 47فیصد مردوں نے مفت علاج معالجہ حاصل کیا‘ جو اپنی ذات میں حکمت ِعملی میں کامیابی کی دلیل ہے۔ مفت علاج کی سہولت متعارف ہونے سے قبل کم آمدنی رکھنے والے طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اکثریت علاج سے محروم رہ جاتی تھی‘ جن کے لئے صورتحال اب قطعی مختلف ہے۔ قابل ذکر ہے مفت علاج کی سہولت سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کے مقابلے ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والوں نے سب سے زیادہ مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے اور اِن 89 ہزار سے زائد افراد میں اکثریت (44 ہزار 800 سے زیادہ) خواتین ہیں۔
 اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پشاور میں مفت علاج کیلئے رجسٹرڈ اہل خاندانوں کی کل تعداد 7 لاکھ 85 ہزار سے زیادہ ہے جو 27 ہسپتالوں میں سے کسی کا انتخاب کر سکتے ہیں جبکہ پورے خیبرپختونخوا میں مفت علاج کیلئے رجسٹرڈ ہسپتالوں کی کل تعداد 161 ہے جن میں نجی علاج گاہیں بھی شامل ہیں اور یہ سبھی علاج گاہیں ’صحت کارڈ پلس‘ کے تحت خدمات فراہم کرنے کی مجاز ہیں اور مجموعی طور پر اِس پوری حکمت عملی پر اب تک 23 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں اور یہ رقم صرف خیبرپختونخوا ہی کی علاج گاہوں کو نہیں بلکہ پنجاب‘ سندھ اور اسلام آباد کی حدود میں علاج گاہوں کو بھی ادا کی گئی ہے اور اِس کے ذریعے زچہ و بچہ (گائنی)‘ جنرل سرجری‘ میڈیکل کیسیز‘ اوپتھمالوجی‘ کارڈیالوجی‘ آرتھوپیڈک‘ تھروٹ‘ یورآلوجی اور اوکنالوجی کے شعبوں میں علاج معالجہ کروایا جا سکتا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے پر 23 ارب روپے خرچ تو ہو گئے ہیں اور اعدادوشمار کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں مریضوں نے علاج بھی حاصل کر لیا ہے جن میں خواتین کی اکثریت ہے لیکن کیا زچہ و بچہ کے دوران خواتین اور بچوں کی اموات میں کچھ یا خاطرخواہ کمی آئی ہے؟ اِس بارے میں اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن علاج کی مفت سہولیات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے تجربات سے متعلق صرف اعدادوشمار جاری کرنے کی بجائے اِس کے نتائج اور بالخصوص مریضوں کی رائے پر مبنی ’فیڈ بیک‘ بھی پیش نظر ہونا چاہئے۔ خوش آئند ہے کہ علاج عام ہوا ہے اور آج خیبرپختونخوا میں رہنے والوں کو اِس بات پر تسلی و تشفی ہے کہ اُنہیں کسی پیچیدہ مرض کے علاج کی ضرورت جب بھی پیش آئے تو یہ بیماری اُنہیں مزید غریب و مقروض نہیں بنائے گی بلکہ صوبے کے چند معروف و بہترین ہسپتالوں سے بھی اپنا علاج کروا سکیں گے جو قبل ازیں صرف سرمایہ دار طبقے کیلئے مخصوص تھا لیکن اِس پوری حکمت عملی اور صورتحال کا  ایک پہلو یہ ہے کہ مفت علاج معالجے کی سہولیات اُن خاندانوں کو بھی فراہم کر دی گئی ہے جو اِس کا استحقاق ہی نہیں رکھتے اور مالی طور پر مستحکم ہیں۔
 اگر فیصلہ ساز کچھ محنت کریں اور اگر پہلے سے موجود غربت کے کوائف سے استفادہ کر لیں یا مرحلہ وار انداز میں ماضی کی طرح 4 اضلاع میں تجرباتی طور پر مفت علاج صرف آمدنی کے لحاظ سے غریب طبقات کو دیا جائے تو اِس سے نہ صرف فی مریض فراہم کی جانے رقم میں اضافہ ہو گا بلکہ دیگر پیچیدہ و دائمی بیماریوں کا علاج بھی ’فری ٹریٹمنٹ‘ میں شامل ہو جائے گا۔ غریب ہو یا امیر اگر وہ ذیابیطس (شوگر) یا بلند فشار خون (سرطان) جیسے عمومی امراض کا شکار ہے جن کی شرح ہمارے معاشرے میں انتہائی زیادہ ہے تو ایسے مریضوں کو یومیہ خوراک کی طرح ادویات باقاعدگی سے لینا ہوتی ہیں لیکن ایسی ادویات مفت علاج کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے فراہم نہیں کی جاتیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اس حوالے سے قانون سازی کر رکھی ہے لیکن ظاہر ہے کہ جب تک کسی قانون کے لاگو کرنے کیلئے ضمنی قواعدوضوابط نہیں بنائے جاتے اُس وقت تک وہ صرف کاغذی دستاویز کی حد تک محدود رہتا ہے۔اس ضمن میں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس اہم اور مفید اقدام سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔صحت اور تعلیم وہ شعبہ ہے جس سے عام آدمی براہ راست استفادہ کرتا ہے اور اس سلسلے میں دیگر ممالک کے کئے ہوئے کام کو نمونے کے طور پر سامنے رکھا جا سکتا ہے۔