وفاقی حکو مت نے ضم اضلاع کے سر کاری دفاتر میں بائیو میٹرک حاضری کا نظام متعارف کرانے فیصلہ کیا ہے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع اورکزئی، کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان، خیبر، مہمند اور باجوڑ میں انتظامی محکموں بشمول محکمہ صحت اور تعلیم میں بائیو میٹر ک مشین نصب کی جائے گی تاکہ ان میں بھوت ملازمین کی نشاندہی کی جا سکے۔ لیوی یا خاصہ دارفورسکے وہ اہلکار جن کو قانون کے مطابق مدت کی تکمیل کے بعد ریٹائر ہو نا تھا اوروہ ابھی تک ڈیوٹی پرہیں ان اہلکاروں کو پولیس فورس میں ضم کرنے کے اقدامات کئے جائیں ٗضم اضلاع کے اکاؤنٹس میں دھوکہ دہی کی روک تھام کیلئے علیحدہ اکاؤنٹس بنائے جائیں گے یہ بھی ہدایت کی گئی کہ قومی مالیاتی کمیشن سے صوبوں کے حصے کا تین فیصد فنڈ قبائلی علاقو ں کی تعمیر وترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے استعمال کیا جائے گا۔یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ خیبر پختونخوا حکومت تعمیراتی منصو بو ں اور دیگر کاموں کیلئے کنٹریکٹ دینے کے نظام کوشفاف بنائے گی۔ ترقیاتی منصوبوں کا ماہانہ بنیادوں پر سروے کیا جائے گااور بے قاعدگی کی صورت میں اے ڈی پی فنڈز بند کر دیئے جائیں گے۔جن پولیس اہلکاروں کو شولڈر پروموشن دے کر قبائلی اضلاع میں تعینات کیا گیا ہے ان کی خدمات سنٹرل پولیس آفس پشاورکو واپس کی جائیں گی۔ دیکھا جائے توخصوصاًصحت اور تعلیم کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حکومت نے سرکاری دفاتر میں بائیومیٹرک سسٹم متعارف کرانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے بہتری کی امید تو پیدا ہوسکتی ہے تاہم کڑی نگرانی کے عمل کے بغیر اصلاح احوال کی توقع رکھنا خود فریبی اور قبائلی عوام کے ساتھ دھوکہ کرنے کے مترادف ہوگا۔لیویز اور خاصہ داروں کو پولیس فورس میں ضم کرنے کا عمل بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی علاقے میں ترقی ہموار سڑکوں پر چل کر آتی ہے۔ آج بھی دور افتادہ قبائلی علاقوں تک رسائی کا بہتر انتظا م موجود نہیں اور سڑکوں کی حالات نا گفتہ بہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شکایات ہیں کہ ملازمتوں میں قبائلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے کوٹے پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا۔دہشت گردی کی لہرکے دوران تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور بحالی کا کام اگر چہ کافی حد تک مکمل ہوچکا ہے تاہم اب بھی کچھ مقامات پر اس میں تیزی کی ضرورت ہے۔۔ این ایف سی ایوارڈ سے تمام صوبوں کو اپنے حصے کا تین فیصد دس سال تک ضم اضلاع کی ترقی کیلئے مختص کرنے پر اتفاق ہوا تھا مگر گذشتہ تین سالوں سے صرف وفاق اور خیبر پختونخوا کے سوا کسی صوبے نے اپنے حصے کا فنڈ نہیں دیا جس کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست ہے جس کی طرف خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ترقی کا سفر تیز کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ افغانستان سے متصل ہیں اور یہ وسطی ایشیاء کے دروازے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے یہاں پر امن اور خوشحالی کا مطلب ہے کہ اس کے مثبت اثرات سے پورا ملک مستفید ہوگا بلکہ یہ پورے خطے کی خوشحالی اور ترقی کیلئے اہم ہے۔